تاریخ اسلام کا سنہری دور جب مسلمانوں کی حکومت دنیا میں
پھیلتی جا رہی تھی اور ہر طرف فتوحات کا سلسلہ جاری تھا ۔بیت المال میں
آمدنی بڑھتی جا رہی تھی ہر طرف سے ڈھیروں رقومات بیت المال میں جمع ہو رہی
تھیں۔ یہ فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دورحکومت تھا کہ
حکمران اور عوام میں خوشگوار تعلقات تھے۔حکام اپنے عوام کا بے حد خیال
رکھتے ۔خلیفہ وقت کا طریقہ تھا کہ ہر شہر میں کچھ لوگوں کا انتخاب کر کے ان
کے ذمہ یہ لگایا جاتا کہ شہر کے فقراء اور محتاجوں کی لسٹ بنا کر لائیں
تاکہ ان کی ضروریات کو بیت المال سے پورا کیا جا سکے۔ ان فہرستوں کا جائزہ
خلیفہ وقت خود لیا کرتے اور احکامات صادر فرماتے۔
اللہ تعالی نے خلیفہ وقت کو مردم شناسی کے فن سے بہرو ور فرمایا ہو ا تھا۔
چنانچہ کسی بھی صوبے کا گورنر منتخب کرتے وقت نہایت احتیاط سے کام لیا
جاتا۔ شام کا علاقہ فتح ہوا تو حمص کے شہر میں حضرت سعید بن عامر رضی اللہ
عنہ کووالئی شہر بنا کر بھیجا گیا۔ کچھ دن بعد اہل حمص کا ایک وفد مدینہ
منورہ آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے بعض معتبر اور ثقہ افراد
کو یہ کام سونپا کہ اپنے شہر کے حاجت مندوں کی فہرست بنائیں تاکہ ان کی مدد
کی جاسکے۔ کچھ دن بعد وہ فہرست لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے اس کا جائزہ لیا
اور اس میں سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کا نام دیکھ کر پوچھا : یہ سعید بن
عامر کون ہے؟ جواب ملا: ہمارا گورنر۔ فرمایا: تمہارا گورنر فقیر ہے؟ انہوں
نے کہا : ہاں، اللہ کی قسم کئی کئی دن گزر جاتے ہیں اور ان کے گھر آگ نہیں
جلتی۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو بے اختیار رو پڑے اور
روتے روتے داڑھی مبارک آنسووں سے تر ہو گئی۔ وفد کو ایک ہزار دینار دیے اور
کہا کہ امیر کو میرا سلام دینا اور کہنا کہ امیرالمومنین نے یہ ہدیہ ارسال
کیا ہے تاکہ آپ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔
یہ وفدحمص پہنچ کر امیر سے ملا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پیغام
اور امانت پیش کی۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ بار بار "انا للہ و انا الیہ
راجعون" پڑھ رہے تھے۔ بیوی نے حیران ہو کر پوچھا : آپ کو کیا صدمہ آ پہنچا
ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ امیرالمومنین وفات پا گئے؟ کہا : نہیں، اس سے
بھی بڑے صدمے اور دکھ کی بات ہے۔ بیوی نے پوچھا :کیا مسلمانوں کو شکست ہو
گئی؟ کہا : نہیں، اس سے بھی بڑے صدمے اور دکھ کی بات ہے۔بیوی نے کہا :
بتائیں تو سہی آخر ہو ا کیا ہے جس سے آپ پریشان اور غم زدہ ہیں؟ فرمایا:
میری آخرت کی بربادی کا سامان ہوا چاہتا ہے۔ گھر میں فتنہ داخل ہو گیا ہے۔
بیوی نے کہا : پھر اس سے نجات حاصل کر لیں۔ پوچھا: بی بی، کیا تم اس سلسلے
میں میری مدد کرو گی؟ بیوی نے کہا ؛ ہاں، کیوں نہیں۔ چنانچہ انہوں نے تمام
دینار مستحق و مساکین میں تقسیم کر دیے۔
کچھ دن بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا گزر حمص سے ہوا۔ اس دور میں
اس شہر کو چھوٹا کوفہ کہا جاتا تھا ۔ اہل حمص اپنے گورنر کے خلاف اکثر
شکایات کرتے رہتے تھے۔جب پوچھنے پر کہ اہل شہر کو گورنر سے کیا شکایت ہے تو
لوگوں نے چار بڑی شکایات بیان کیں جو کہ وہیں گورنر کی موجودگی میں بیان کی
گئیں۔
1۔پہلی شکایت یہ کہ والئی شہر لوگوں سے خوب دن چڑھے ملاقات کرتے ہیں۔ اس سے
پہلے ان سے ملاقات بڑی مشکل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعید رضی
اللہ عنہ کی دیکھا اور اس کا سبب دریافت کیا۔ جواب ملا: امیر المومنین ،
میں آپ لوگوں کو بتانا نہیں چاہتا تھا مگر صورت حال کچھ یوں ہے کہ میرے پاس
کوئی غلام یا نوکر نہیں ہے، بیوی بیمار رہتی ہے اس لیے میں صبح اٹھ کر پہلے
خود آٹا پیستا ہوں پھر گوندھتا ہوں اور اس میں خمیر اٹھنے کا انتظار کرتا
ہوں اتنی دیر میں اشراق ہو جاتی ہے تو نفل ادا کر کے گھر سے نکلتا ہوں۔
2۔دوسری شکایت کہ رات کو کسی سے نہیں ملاقات نہیں کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے پوچھا : ہاں سعید، اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب ملا : حضرت، میں بتانا
نہیں چاہتا تھا دراصل میں نے پورا دن لوگوں کی خدمت گزاری کےوقف کر رکھا ہے
اور رات اپنے رب کے لیے وقف کی ہوئی ہے۔
3۔ تیسری شکایت یہ کہ مہنہ میں ایک دن ایسا بھی ہوتا ہے جب یہ گھر سے باہر
نہیں آتے۔ جواب دیا گیا: امیر المومنین، میرے پاس پہننے کو ایک ہی جوڑا ہے
اور کوئی خادم یا نوکر نہیں اسلیے مہنہ میں ایک دن اسے دھوتا ہوں اور
سوکھنے کا انتظار کرتا ہوں اس لیے شام کو ہی نکل پاتاہوں۔
4۔ چوتھی شکایت یہ ہے کہ انہیں اکثر غشی کے دور ے پڑتے ہیں اس کی وجہ بتا
ئی جائے۔ جواب ملا: میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو مکہ مکرمہ میں حضرت
خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کو سولی پر چڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔میں اس وقت
مشرک تھا ۔ قریش ان کے جسم پر نیزوں سے کچوکے لگاتے اور پوچھتے:
"کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمہاری جگہ محمد صلی اللہ و علیہ وسلم ہوں؟"
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ جواب دیتے:
میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ ان کو کوئی کانتا چبھے اور میں اپنے اہل و
عیال میں خوش و خرم رہوں"!"اللہ کی قسم
جب وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو ندامت اور شرم و حیا سے مجھ پر
غشی طاری ہو جاتی ہے۔مجھے فکر لگ جاتی ہے کہ قیامت کے دن میرا رب مجھ سے
پوچھ نہ لے۔ائے کاش میں اس وقت مسلمان ہوتا، حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی مدد
کرتا ، کافروں کو روکتا یا پھر خود بھی ان کے ساتھ شہادت پا جاتا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب جوابات سنے تو ان کی ہچکیاں بند ھ گئیں
اور کہا:
"اس اللہ کا شکر ہے جس نےمیری فراست کو کمزوری سے بچا لیا"
آپ رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار دینار دیے کہ ان سے اپنی ضروریات کو پورا کر
سکیں۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ کی بیوی نے جب دیکھا تو کہا: اب ان سے ہم
سواری اور نو کر وغیرہ کا بندوبست کر لیں گے۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے
بیوی سے پوچھا : ان سے بہتر چیز کا انتخاب کیوں نہ کریں۔ کہنے لگیں : وہ
کیا چیز ہے؟ تجویز کیا: رب تعالی کو قرض دے دیتے ہیں اور اس کا اجر اس سے
لیں گے۔ نیک طینت بیوی نے اثبات میں سر ہلایا اور بولیں: اچھی بات ہے۔ اللہ
تمہیں اس کی جزا دے۔ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے اپنے خاندان کے ایک فرد کو
بلا کر کہا : یہ لے جاو اور فلاں یتیم کو اتنے دینار، فلاں مسکین کو اتنے،
فلاں بیوہ کو اتنے، فلاں حاجت مند کو اتنے دینار دے آو۔ اس طرح پوری رقم
اسی مجلس میں خیرات کر دی۔
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
(نوٹ: درج بالا واقعہ جناب عبدالمالک مجاہد کی کتاب سنہرے اوراق سے انتخاب
ہے بحوالہ: حلیۃ الاولیا ء۔ تاریخ دمشق الکبیر)
|