قیامت خود بتائے گی قیامت کیوں ضروری تھی

 ثناء ریاض
بنتِ حوا کے نرم لہجے نے
ابنِ آدم بگاڑ رکھے ہیں
ابن ِ آدم نے سارے الزام
بنتِ حوا پہ ڈال رکھے ہیں
زندگی ہمیشہ وہ نہیں رہتی جس کے سہانے خواب ہماری چہکتی، چمکتی معصوم آنکھوں نے چپکے سے دیکھے ہوتے ہیں۔ اس زیست میں جہاں معجزات رونما ہوتے ہیں وہاں عذاب بھی مرتب ہو جاتے ہیں۔ ایک معزز خاتون سے لے کر ننھی کلی تک کی پاکیزگی، وقار، عزت خطرے کے دھانے پہ آ رکی ہے۔ کل
تک مرد کے شانہ بشانہ چلنے والی عورت آج گھر کے مردوں کے بھی تحفظ سے مطئمن نہیں رہی۔
قیامت خود بتائے گی قیامت کیوں ضروری تھی

مرد کے ہوس نے عورت کو لوٹ کھایا؟ با پردہ عورت کو بھی درندگی کی زہریلی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ زنا کی لوٹ مار کے نئے سے نئے طریقے دریافت ہو چکے ہیں۔

یاد رکھیے ہر عورت شوق، تجسس یا باہر کی چکا چوند روشنی و رنگینی تاکنے کی خاطر گھر کی چار دیواری کو نہیں پھلانگتی۔۔۔۔۔۔مجبوری بھی انسان کو گھر سے دھکیل کر در در کی ٹھوکر کھانے پہ مجبور کرتی ہے۔ جب ایک مجبور گھر کا کنبہ تین وقت کی روٹی کے لیے مرا جا رہا ہو تو ایک بے کس ماں اپنی اولاد کو موت سے زندگی کی جِلا بخشنے کے لیے کام کاج کی تلاش میں نکل پڑتی ہے اے ابن آدم ایسی ماں کی عزت نوچ کر تو کیسے سکون سے سو پاتا ہے؟۔ایک لڑکی جو معذور ماں باپ کا واحد سہاراہے، مجبوری کی بنا پر گھر سے قدم نکال بیٹھی ہے تو اس پہ تم ظالم مرد کیوں بری نظر گھاڑ لیتے ہو؟ کیوں نہیں سوچتے کل یہ تمہارے مقدر میں بھی لکھا جا سکتا ہے؟۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’تین دعائیں ہیں جن کے قبول ہونے ہیں کوئی شک نہیں۔۔۔۔مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، والدین کی دعا اولاد کے حق میں‘‘۔
''سنن ابنِ ماجہ 3862''

تمہاری چند لمحوں کی مسرت کسی مجبور،بے کس، لاچار کی پاک زندگی پہ گندگی کا ٹھپہ لگا جاتی
ہے۔ جب ایسی ذلت تم کسی کے ماتھے پہ تھوپتے ہو تو یاد رکھو وقت بڑا ظالم ہے جب تم نے کسی ذی روح کو کچلا ہے تو وقت کے پلٹا کھانے کا انتظار کرو۔ زنا کا حساب ہر حال میں دینا ہو گا۔
یاد رکھو:
زنا پہلے عقل کو پھر شکل کو پھر نسل کو بگاڑ دیتا ہے۔
لیکن سوال پھر یہ اٹھتا ہے کہ زنا و زیاتی کے اتنے واقعات کیوں؟
سب کی نہیں میں اپنے ذہن میں آنے والی وجوہات کو قلم کا سہارا دوں گی۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے فلموں کا، چینلز پہ آنے والی بیہودگی اور گندے مواد کا کمال ہے کہ لوگ اپنے ہوس پہ قابو کھو بیٹھے ہیں ویسے بھی جب حرام کھانے کی لت لگ جائے تو فرق کہاں پڑتا ہے کہ گوہر پکی ہے یا معصوم کچی کلی۔۔۔۔۔ یہی حال ہے بڑھیا سے لے کر ننھی بچی تک کو لپیٹ کر نچوڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جب ایک گناہ گار کو اس کے کیے کی سزا نہ ملے تو دوسرے اسے مہلت نہیں بلکہ طاقت سمجھ کر دہراتے ہیں۔ سرعام ایک قتل میری نظر کے سامنے سے گزرا دس دن میں اس خوف کی تاب نہ لا سکی مگر دل کے ساتھ ساتھ ضمیر کی آخری حدیں تب کانپیں جب میں نے اس قاتل کو پھانسی کے پھندے کی بجائے سڑکوں پہ دندناتے دیکھا۔ تب میرے دل نے شور مچایا کہ اب قتلِ عام کا چشم و چراغ نکل آیا ہے اب حوصلوں کو بلندی ملے گی۔۔۔اسی طرح ایک ذلیل زانی کو موت کے منہ نہ اتارا گیا تو پھر کس بات کی چینخ و پکار۔۔۔۔اب بھگتو۔۔۔
اب قاضی کے آگے قاتل ناچتا ہے
ظالم درندوں کے واسطے پھانسی کا پھندا ترستا ہے
وقت کے آگے فیصلہ ناچتا ہے

پھندا ہوس کے ماروں کا انتظار کرتا رہا مگر کوئی درندہ اس کی پیاس نہ بجھا سکا پھر کیا وقت نے پلٹا کھایا۔۔۔۔۔۔اب ہر عزت گنواتی ماں بہن بیٹی نے پہلی پکار ہی یہ لگائی کہ اس زندگی سے موت اچھی۔۔۔۔ہر گھر کی زینت نے اس ترستے کندھے کو دبے پاوں گلے لگایا۔

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ عورت کی مردوں پہ برتری حاصل کرنے کی چاہ نے اسی سے تحفظ چھین لیا۔ بے پردہ عورت کے جسم کو لمحوں میں نوچ کھانے والی نظروں کو جب چست پاجامے والی حسینہ نہ ملی تو ایک ننھی کلی پہ پیاس بجھاتے ہوئے رحم نہ کھایا۔ مرد کا نفس عورت سے کمزور ہے شائد اسی لیے خداوند کریم نے اسے چار شادیوں کی اجازت دے دی مگر ہائے رے قسمت۔۔۔۔۔مرد کے ہوس کو اتنی تقویت ملی کہاں سے۔۔۔۔ کہ چار سے جی نہ بھرا اب ہر راہ چلتی معصوم کو بستر پہ گھسیٹنے میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ اب کھلونوں سے کھیلنے والی بچی کو کھلونے کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے۔ وقت کی زنجیر اب کی بار کڑی ہے کرب ناک ہے۔ خدا کسی عیسیٰ کو نازل کر کسی ابنِ قاسم کو پیدا فرما۔

مرد کے چنگل سے آزاد ہونا کمزور عورت کے بس میں نہیں وہ بھی اس لمحے جب مرد پہ ہوس، درندگی کا بھوت سوار ہو۔۔۔۔۔طاقتور مرد کمزور عورت کو اپنے پنجے میں دبوچ کر مزید کمزور کر رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ گنے چنے لوگ جو پیدا ہوتی بیٹی پہ ماشااﷲ کہتے ہیں وہ بھی معصوم بیٹی کو دیکھ کے منہ موڑ لیں۔۔۔۔خدارا درندوں کو زندان میں ڈالا جائے۔وقت چِلا چِلا کر کہہ رہا ہے زانی کو کڑی سے کڑی، بڑی سے بڑی،تشدد کی شدت والی موت دے کر صفحہ ہستی سے مٹایا جائے ایسے کام کی طرف بڑھنے والے قدم کانپ کر نہیں بلکہ خوف کی شدت سے ٹوٹ کر گر پڑیں۔

بنتِ حوا معاشرے کی سب سے اہم ضرورت ہے اس سے پہلے کی ہر گھر کی دولت لٹے چوروں کو گہری کھائی میں دفنا کر عزت کا محل بنا لیا جائے۔

Rasheed Ahmad Naeem
About the Author: Rasheed Ahmad Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmad Naeem: 47 Articles with 40511 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.