زنا و بدکاری کے معاشرے میں پھیلتے ہوئے واقعات کے ذمہ دار کون؟

معاشرے میں پھیلی برائیوں کا میں خود کتنا ذمہ دار ہوں اور انکو دور کرنے میں میرا کیا کردار ہے؟

زنا و بدکاری کے بہت سے واقعات ہر ملک میں ہو رہے ہیں، ہم اس پر تبصرے بازی تو بہت کرتے ہیں لیکن کیا کبھی ہمیں یہ سوچنے بھی توفیق ہوئی ہے کہ ان برائیوں کو روکنے کیلیئے میری پوری زندگی میں کیا میرا بھی کوئی کردار رہا ہے؟

برائیاں روکنے کیلیئے میرے کردار سے پہلے تو یہ بات سوچنے کی ہے کہ ان برائیوں کے معاشرے میں پھیلنے میں کیا میں بھی کسی حد تک ذمہ دار ہوں؟ اگر ہوں تو سب سے پہلے خود اپنے آپکو ملامت کرنے کی ضرورت ہے اسکے بعد کسی اور کو الزام دینے کا سوچیں۔

آب ذرا دیکھتے ہیں کہ ان واقعات کا سب سے پہلے کون ذمہ دار ہے؟

سب سے پہلے اسکی ذمہ دار وہ عورتیں اور وہ لڑکیاں جو آوارہ لباس یعنئی آدھی یا چھوٹی آستین، کھلے گلے، تنگ لباس یا آوارہ ساڑھی وغیرہ جیسے بے شرمی والے لباس ذیب تن کرکے بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں، بن ٹھن کر مخلوط تقریبات میں جاتی ہیں اور ایسے لباس میں اسکول، کالج اور یونیورسٹی جاتی ہیں، اس طرح جوان لڑکوں اور مردوں کے جذبات کو شدت کے ساتھ ابھارتی ہیں اور غیر مردوں کے آنکھوں کی لذت اور ذہنوں کی عیاشی کا ذریعہ بنی پھرتی ہیں۔

گھر کی خواتین ان برائیوں کے پھیلنے کی سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، اسکے بعد سب سے زیادہ اسکے والدین خاص طور پر باپ اور اسکے بعد اسکی ماں اور انکے بعد انکی خالائیں اور پھوپیاں اور خاندان کی بڑی خواتین ہیں کہ جو نہ توخود اسکا اہتمام کرتی ہیں اور نہ اپنے چھوٹوں کو اس کی نصیحت اور تاکید کرتی ہیں۔

آجکل ہم سب پر ایک ایسی بے حسی طاری ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس تو اچھی جاب ہے، کاروبار چل رہا ہے اور زندگی بظاہر خوشحالی کے ساتھ رواں دواں ہے تو ہم بہت آسانی سے اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہم سے راضی ہوچکے ہیں کہ اگر راضی نہ ہوتے تو پھر اتنا کچھ کیوں دیتے؟ پھر ہمارے دلوں میں یہ خیال آتا ہے کہ پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ کسی درد سر کو اپنے اوپر طاری کریں، اللہ تعالٰی تو ہم سے ویسے ہی خوش ہے۔

اگر لوگوں کی ملامت کا خوف نہ ہوتا تو ہم میں بہت سے لوگ بڑی آسانی سے اپنے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ بھی لکھنے سے نہیں شرماتے کیونکہ اپنی جاب، کاروبار اور بنک بیلنس سے تو یہی لگتا ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوچکا ہے۔

ایسی گمراہ سوچ غیر مسلم کی ہوتی ہے لیکن افسوس کہ آج ہماری سوچ بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

جو عورتیں ایسے آوارہ لباس پہن کر غیر مردوں کی آنکھوں کی لذت اور ذہنوں کی عیاشی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں وہ خود تو اللہ، فرشتوں اور تمام مخلوق کی لعنت میں زندگی گزار ہی رہی ہیں لیکن انکے ساتھ ساتھ انکے باپ، بھائی اور خاص طور پر انکے شوہر بھی اس لعنت میں مبتلا ہونگے اگر انہیں اسکی کوئی پرواہ نہ ہو اور وہ انہیں اس سے نہیں روکتے ہوں تو ایسے مردوں کو اسلام نے دیوث کا نام دیا ہے۔

Farrukh Abidi
About the Author: Farrukh Abidi Read More Articles by Farrukh Abidi: 10 Articles with 8857 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.