والد۔۔۔ اس لفظ کو لکھتے اور پڑھتے ہوئے زہن کے دریچوں
میں اک بھنور سا آ جاتا ہے یادوں کا اک بھنور۔ اس لفظ کو محض اک دو جملوں
میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں نا مکمن ہے۔ میرے نزدیک اس لفط کی قدروقیمت
شاید باقیوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے کیوں کے میرے والد محترم حیات نہیں۔ میں
نے بے شمار تحریں ماں کی عضمت پر پڑھیں جو کے بلا شبہ درست ہیں تو سوچا اک
تحریر باپ کے لیے بھی قلمبند کروں۔
و سے وفا شعار، الف سے الفت کا پیکر،ل سے لازاوال محبت کرنے والا اور د سے
دست گیری کرنے والا ان تمام الفاظ کو یکجا کریں تو اک خوبصورت لفظ تشکیل
پاتا ہے والد۔ یہ محض اک لفظ نہیں اک رشتہ اور اک احساس ہے۔ جس طرح سے
اسلام میں ماں کا درجہ ھے بلکل اسی ظرح باپ کو بھی فضلت حاصل ہے مگر ہمارے
معاشرے کا المیہ ہے کے صرف ماں کی فضلیت کو ھر لحاظ سے اجاگر کیا جاتا ہے
اور باپ کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ دراصل باپ انسان کو اس دینا میں
لانے کا زریعہ ھے اس گلشن انسانیت کی ابتدا ہی باپ سے ہوئ تھی حضرت آدم کے
روپ میں۔
جب اک عورت اور اک مرد اپنے لڑکپن اور الہڑ جوانی سے نکل کر شادی کے بندھن
میں بندھتے ہیں تو صرف عورت ہی زہنی اتار چڑھاؤ اور مختلف حالات کا سامنا
نہیں کرتی بلکے مرد بھی اتنی ہی ردوبدل کا سامنا کرتا ہے ۔ جب عورت ماں کے
روپ میں آتی ہے تو صرف وہ نہیں بلکے باپ میں بھی تبدیلاں رونما ہوتی ہیں
ایسی تبدلیاں جو اک بے باک اور شوخ لڑکے کو باپ کے رتبے پے فاٰٰءز کرتی ہیں
اور اسے زمہ دار بنا دیتی ھیں۔ ہمارے معشارے میں رائج کچھ فرسودہ باتوں جسے
کہ مرد تو مضبوط ہوتا اسے رونا نہیں چاہیے اسے خود کو کمزور نہیں دیکھانا
چاہیے وغیرہ اہسی باتوں نے مرد کو بہت کمزور بنا دیا ھے۔ اک باپ اپنے گھر
والوں کے سامنے اپنے جزبات کا اظہار نہیں کر سکتا رو نہیں سکتا کیوں کے اسے
خود کو مضبوط ثابت کرنا ھے۔ مگر سوال یہ ہے کے کیا باپ کے سینے میں دل
نہیں؟ جزبات تو باپ کے بھی اھم ہیں ماں کی طرح مگر اسے اظہار کی ازادی نہیں
ھوتی۔
جب اولاد ہوتی ہے تو ماں کی طرح باپ بھی خوشی سے نہال ہوتا ہے جزبات سے
سرشار ہوتا ہے۔ باپ تو وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے اھل و عیال کی کفالت میں دن
رات جتا رہتا ہے اپنے بچوں کی پرورش اور اچھے مستقبل کے لیے اپنا خون پیسنہ
اک کرتا ہے۔ وہ اک جہدِ مسلسل میں رہتا ہے کے اپنے اھل و عیال کی دیکھ بھال
میں کوئ کسر نہ چھوڑے۔وہ خود سخیاں جھیل کر اپنے بچوں کے لیے آسانیاں پیدا
کرا ہے۔ باپ وہ ہسی ہے جو دن کو آرام نہی کرتا اور رات کو بھی فکرِ معاش
میں خود کو کروٹ کروٹ بے سکون رکھتا ہے۔ وہ ایسی سیسہ پلائ دیوار صابت ہوتا
ہے کہ خود سب سہہ کر اپنے گھر والوں کو آسائشیں فراہم کرتا ہے۔باپ وہ شجر
ہوتا ہے جو اپنے سایہ میں رھننے والوں کو ھر قسم کے طوفان سے محفوظ رکھتا
ہے۔
باپ کی اطاعت پر ہمارے مزہب نے بھی زور دیا ہے دراصل باپ کی خوشنودی الله
کی خوشنودی ہے اور باپ کی ناراضگی الله کی ناراضگی ہے۔باپ کی عظمت اور مقام
کے بارے میں حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایا :باپ جنتکے دروازوں میں سے بیچ کا
دروازا ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اسے ضائع کر۔ ایک صحابی
حضرت محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کے میرا باپ میرا سارا مال خرچ
کر دیتا ہے آپ نے باپ کو بلا کر حال معلوم کیا تو باپ نے کچھ اشعار پڑھے جن
کا خلاصہ ہوں تھا: میں نے تمہں بچپن میں غزا دی اور ہر زمہ داری اٹھائ
تمھارا سب کچھ میری کمائئ سے تھا جب کسی رات تم بیمار ہوتے تو میں بیدارری
میں رات گزراتا میرا دل تمھاری ہلاکت سے ڈر جاتا اب جب تو اس عمر کو پہنچ
گیا ہے تو تم نے میرا بدلہ سخت روئئ سے دیا ہے جیسا کے تم مجھ پر احسان کر
رھے ہو۔۔ آپ ﷺ نے یہ اشعار سنے تو بیٹے سے فرمایا “تو اور تیرا مال سب تیرے
باپ کا ہے۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں اس سائے شفقت سے محروم ہوئی ۔ شاہد اک باپ
کو خود بھی آندازہ نہیں ہوتا کہ اسکی ماجودگی کتنی اھم ہے انکے جانے کے بعد
محسوس ہوا کے گھر تو اب ہے مگر گھر کی چھت نہ رہی باہر کے طوفان، زامانے کی
تپتی دھوپ اور غموں کی حوا اپنا زور دیکھانے کے لیے ازاد ہو گے ہوں دنیا
دراصل کیا ہے دنیا اور لوگوں کے بدلتے رنگ و روپ کا اندازا باپ کے جانے کے
بعد ہوا۔ میں اپنے باپ کے بعد زندگی کے ایسے بےشمار نا گزیر پہلوؤں سے گزری
ہوں جن سے میں انکے ھوتے ہوئے نا آشنا تھی اور جنکی بھنک انہوں نے اپنی
زندگی میں مجھے نا لگنے دی۔ باپ ایسی ہستی ھے جس کا کوئئ نعم لبدل نہیں خدا
کی خوشنودی کے لیے باپ کی اطاعت ضروری ھے میری آجکل کی نوجوان نسل سے گزارش
ہے کے یس ہستی کی قدر کرو اس سے پہلے کے وقت کی راوانی انہے اپنے ساتھ بہا
لے جائے۔
میں اج بھی جب کسی بییٹی کو اسکے باپ کے ساتھ دیکھوں تو انکے لیے لب پر دعا
ہوتی ہے کے انکا ساہہ ھمیشہ سلامت رھے اور میری آنکھ پررنم ہوتی ہے اپنے
والد کو یاد کر کے۔ خدا انہے جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے(آمین)
عزیز تر رکھتا تھا وہ مجھے رگِ جان سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نا تھا میری ماں سے
|