پولیس سماج دشمن عناصر کی حقیقی سرپرست

 اقتدار میں آنے سے پہلے پولیس ریفارمز کا دلفریب نعرہ لگا نے والے موجودہ حکمران اب اس نعرے کومکمل طور پر بھول چکے ہیں حکمرانوں اور پنجاب کے بدلے جانے والے 6 آئی جیز سمیت دیگرسینئرپولیس افسران کی جانب سے تبدیلی کے دعوے اور طفل تسلیاں اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا فرسودہ اورگھسا پٹا نظام کسی بھی قسم کی بہتری کی بجائے مزید تنزلی کی طرف گامزن ہے ، گوجرانوالہ میں بھی آر پی او سی پی او آتے جاتے رہتے ہیں اور ہر آنے والا سربراہ نظام بدلنے اور کوئی چمتکار دکھانے کے لئے تیار لگتا ہے لیکن پھر کچھ ہی عرصے میں خود بھی اسی نظام کا ایک کل پرزہ بن کر رہ جاتا ہے اور معاملہ جوں کا توں چلتارہتا ہے، بعض افسران اپنی خوش اخلاقی اور انفرادی کارکردگی کی بدولت عوام میں اچھا امیج بنانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو انکی یہ کوششیں سسٹم کو بدلنے اور اصلاحات کے نفاذ کے لئے ناکافی ثابت ہوتی ہیں اورانکے جاتے ہی وہی پہلے والی دھماچوکڑی مچ جاتی ہے اب تک کاحاصل یہ ہے کہ پولیس کانظام بدلنا تو درکنار تمام تر لیکچر بازی کے باوجود اعلیٰ پولیس افسران ماتحت پولیس کا رویہ بہتر بنانے اور اسے لوگوں سے بات کرنے کا طریقہ تک سکھا اور سمجھا نہیں سکے ، رویے کو چھوڑ بھی دیں تو پولیس کی کارکردگی اتنی خراب ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ضلع گوجرانوالہ میں ڈکیتی راہزنی قتل جنسی زیادتی کی وارداتیں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں کہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے قانون کی کوئی رٹ ہی موجود نہیں ہے عوام لٹ رہے ہیں جان و مال کے لالے پڑے ہوئے ہیں ڈکیٹ گلی گلی دندناتے پھر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ، البتہ پولیس کی فرضی کہانیوں پر مبنی پریس ریلیزکا ہر روز انبار لگ جاتا ہے ، جن میں پولیس کو دنیاکی عظیم فورس ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس اپنا روایتی کردار ادا کرنے میں مصروف ہے ، لاک ڈاؤن کے دنوں میں جب پوری دنیا بے روزگاری کی شکار تھی ہماری پولیس نے ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ دیہاڑیاں لگائیں، تھانوں میں منہ مانگی رشوت چل رہی ہے ، جعلی کارکردگی ،جھوٹی شناخت پریڈیں ، رشوت ستانی ، جھوٹے پرچے ،جانبدارانہ تفتیش پہلے کی طرح سلسلہ جاری و ساری ہے ، ناجائز وجائز کام دونوں کے ریٹ البتہ بڑھ گئے ہیں اس بات کی نشاندہی بار بار ان کالموں میں کی جاتی رہی ہے کہ پولیس سے پختہ و دیرینہ تعلقات خفیہ رابطوں اور بے تحاشامال لگانے کی وجہ سے جرم کی دنیا کے بادشاہ اور ڈون اشتہاری ہو کر بھی آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہے اور مزید جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور غریب گھرانوں کے بے روزگار بچے جوئے منشیات اور آوارہ گردی میں دھر لئے جاتے ہیں اور جیلوں میں بھیج کر انکی ساری زندگی خراب کر دی جاتی ہے چنانچہ پنجاب کی جیلوں میں بیشمار بے گناہوں اور غریبوں کی آہیں اب بھی گونج رہی ہیں جو معمولی درجے کے مجرم تھے یا بالکل بھی نہیں تھے اور کارکردگی دکھانے کے لئے ان پر منشیات اور ڈکیتیاں ڈال دی گئیں جبکہ اصل اور بڑے مجرم قانون کی گرفت سے باہر ہیں، بڑے منشیات فروشوں کی بجائے منشیات استعمال کرنے یا چھوٹی سطح پر نشہ فروخت کرنے والوں پر ہی9-Cلگتی ہے جبکہ بڑے ڈیلرز کو لاکھوں روپے لے کر اس گھناؤنے کاروبار کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے، اشتہاری اور بدنام زمانہ مجرمان کو جیلوں میں وی آئی پی پروٹوکول بھی محض الزام نہیں بلکہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے ،پولیس نشئی اور چھوٹے درجے کے مجرموں کو جیلوں میں ٹھونس رہی مگر اشتہاری مجرمان پر ہاتھ نہیں ڈال رہی ، جرائم کے لئے حالات اتنے سازگار بنا دیئے گئے ہیں کہ نامی گرامی اشتہاری ڈکیت و پہلے سے جیلوں میں پناہ گزین تھے وہ بھی اب ضمانتیں کروا کر باہر آگئے ہیں جسکی وجہ سے کرائم ریٹ یکدم بڑھ گیا ہے گوجرانوالہ میں ایک مدت سے منشیات ، جوئے اور جسم فروشی کے اڈوں کو پولیس کی مکمل اور باضابطہ سرپرستی حاصل ہے اور منشیات مافیا اپنی مرضی کے ایس ایچ اوز کی تعیناتی کے لئے پیسہ اور اثرورسوخ دونوں کا استعمال کرتا ہے ، تتلیاں سپلائی کرنے والی آنٹیاں افسران کی خوشنودی کے لئے مستقل نیا اور فریش مال بھیجتی ہیں جسکے بدلے انکے اڈوں اور ناجائز دھندوں کی جانب کسی کیآنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرات نہیں ہیجرائم کی بیخ کنی کی بجائے خود جرم کی حصے دار بنی ہوئی پولیس کا سارا زور میڈیا مینجمنٹ پر ہے اور میڈیاکے کچھ لوگوں کو ہم نوا بنا کر سب اچھا دکھانے اور بتانے کی پولیس کو یہ عادت پڑی ہوئی ہے اور اسے ہی کافی سمجھا جا رہا ہے لیکن پولیس اپنے ’’ہمنوا میڈیا نمائندگان ‘‘ کی جانبدارانہ رپورٹنگ اور ڈس انفارمیشن کے ذریعے اپنے افسران کی بہادری اور شجاعت کی جعلی داستانیں پیش کر کے حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتی گو جرانوالہ پولیس جو اپنے جعلی کارناموں کی پریس ریلیز جاری کرنے میں تعداد کے لحاظ سے شاید پورے ملک میں پہلے نمبر پر آتی ہوگی آر پی او سے لے کر نکے تھانیدار تک سب پریس ریلیزہی جاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور یہی انکا واحد مشغلہ لگتا ہے ایک طوفان ہے جو برپا ہے ،مگر حقیقی کارکردگی صفر ہے ، پولیس افسران اپنے خلاف خبروں کو نہ صرف رکوانے میں مہارت رکھتے ہیں پولیس کے خلاف کوئی بیان کوئی واقعہ سامنے آجائے اسے اتنی صفائی سے manage کیا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ،حالیہ دنوں میں دیکھا جائے تو بچے بچیوں اور خواتین کے ساتھ درندگی اور ڈکیتیوں کے واقعات نے جرائم کی دوسری سب خبروں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے گوجرانوالہ میں ایسی وارداتوں میں 6قتل ہونیوالے بچے بچیوں کے قاتل ابھی تک پکڑے نہیں جاسکے پنجاب کے دیگراضلاع کی طرح گوجرانوالہ میں بھی بد ترین صورتحال ہے اور لوگوں کی عزت جان و مال سب کچھ غیر محفوظ ہو چکا ہے ،گذشتہ دنوں احمد نگر گکھڑ اور اروپ اور ضلع کے دیگر کے علاقوں میں ہونے والی ڈکیتیوں میں ملوث آٹھ سے دس ڈاکوؤں پر مشتمل گینگ نے پولیس کو تگنی کا ناچ نچا دیا ہے لوگوں کے گھروں میں گھس کر انکا نہ صرف مال لوٹ لے گیا ہے بلکہ بعض وارداتوں کے بارے میں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان میں خواتین کی آبروریزی بھی کی گئی ہے اور متاثرہ گھرانے معاشرے میں تماشا بننے کے ڈر سے بیٹیوں کی عزت کی پامالی کی رپورٹ تک درج نہیں کرا رہے ، کامونکی سے بھی اطلاعات ہیں کہ ڈکیتوں نے اودھم مچا رکھا ہے،سمجھ سے باہر ہے کہ پولیس کے سربراہان کواس درندگی لوٹ مار اور قتل وغارت کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ دیکھ کر رات کو نیند کیسے آجاتی ہے پولیس کی بدنامی جرائم کی سرپرستی ،عوام کے ساتھ بداخلاقی کی وجہ سے لوگ تھانے جانا تو درکنار تھانے اور پولیس والوں کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے نتیجہ یہ کہ ایک طرف عوام کی جمع پونجیاں ڈاکو لوٹ رہے ہیں دوسری طرف پولیس کی سر پرستی میں منشیات جوئے اور بدکاری کے دھندے مسلسل ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں، یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ گوجرانوالہ ریجن میں اس وقت منشیات فروشی سے بڑا اور کوئی دھندہ نہیں ہے اور آپ جس ضلع میں جتنی مقدار میں چاہیں منشیات با آسانی خرید اور فروخت کر سکتے ہیں 10لاکھ کی منشیات بیچنے والا اگر کبھی پکڑا بھی جائے تو پولیس کوموقع پر 2لاکھ دے کر بچ جاتا ہے چنانچہ منشیات کا کاروبار دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا چلاجارہا ہے اور یہ زہرشہروں کے معروف تعلیمی اداروں کالجوں یونیورسٹیوں تک پھیلنے لگا ہے ، منشیات کے استعمال سے کئی نسلیں پہلے ہی تباہ ہوچکی ہیں جوئے منشیات فروشی اور جسم کے کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے ضلع میں پولیس کے افسران 20،20سال سے موجود ہیں وہ افسران جو کبھی ایس ایچ اوز تھے اب ڈی ایس پی بن چکے ہیں اور اپنی اپنی سلطنت کے بلا شرکت و غیرے مالک بنے ہوئے ہیں ،پولیس کی ساری مہارت جرائم کو قابو کرنے کی بجائے لوگوں سے سچے جھوٹے بیان دلوانے اور بیان واپس لینے میں کام آرہی ہے ، سالہا سال سے پولیس کی وردی پہن کر ایک ہی ضلع میں براجمان ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز اب باقاعدہ پیشہ ور کریمنلز کی شکل اختیار کر چکے ہیں ،پولیس کے یہ مستقل تعیناتی والے افسران جرائم کی دنیا کے برابر کے حصے دار بن کر پیشہ ور مجرموں کی پشت پناہی کا کام انجام سے رہے ہیں ، اس صورتحال میں اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے پولیس کی کارکردگی بارے بیانیہ سراسر خوش فہمی اور مبالغہ آرائی ہے،آج بھی بااثر لوگ قبضے لینے اور دینے کے لئے ہر ضلع میں پولیس کی خدمات حاصل کرتے ہیں،پھر کارکردگی کی داستانیں کیا ہوئیں،گوجرانوالہ کے اعلیٰ افسران بتا سکتے ہیں کہ انکے آنے کے بعد منشیات فروخت ہونا بند ہو گئی ہے ِ؟کیا ڈکیتی چوری اور راہزنی کی وارداتیں کم ہوئی ہیں یا پہلے سے بھی بڑھ گئی ہیں، ؟کیا تھانوں میں آنے والے سائلین کو انسان سمجھنا شروع کر دیا گیا ہے ؟کیا پولیس کو عوام کے ساتھ بات کرنے کی تمیز سکھا دی گئی ہے ؟ جھوٹے پرچے بند ہوگئے ہیں یا جعلی کارروائیوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے ؟ اگر نہیں تو پھر آپکی ساری شان و شوکت طمطراق اور بھاگ دوڑ کسی کام کی نہیں آپکی چھوٹ ، پولیس کو قانون کے سامنے جوابدہ نہ بنانے نے پورا محکمہ تباہ کردیا ہوا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بے پناہ اختیارات ہونے کے باوجو د چوروں ڈکیتوں اور راہزنوں ، منشیات فروشوں پر ہاتھ نہ ڈال کر ایک لحاظ سے انکے پارٹنر ہی بنے ہوئے ہیں، اس صورتحال میں پولیس سربراہان کی ناک کے نیچے بڑے بڑے عہدوں کو انجوائے کرنے والے ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف ایس ایس پی صاحبان بتائیں کہ وہ مجبور ، محکوم اور مظلوم عوام کے ساتھ ہیں یا ڈکیتوں ، اشتہاریوں منشیات فروشوں جوئے اور جسم فروشی کے اڈے چلانے والوں کے ساتھ ؟اوراپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے ادا نہ کر کے درحیققت خطرناک ملزمان کے لئے آسانیاں پیدا دے رہے ہیں کیا پولیس افسران نے اپنے سارے رعب و دبدبے کو عوام کی جھاڑ پھٹکار کے لئے رکھاہوا ہے ، عوام پولیس کو دیکھ کر لرز جاتے ہیں لیکن آپ سے کوئی ڈاکو چورراہزن ان سے خوفزدہ کیوں نہیں ہے ، کیا پولیس افسران کا واحدکام سیاستدانوں کے اشاروں پر ناچنا ہی رہ گیا ہے ؟ عوام حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ پولیس کا یہ فرسودہ گھسا پٹا اور بد بودار نظام آخر کب بدلے گا ؟

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67222 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.