اپنی گیارہ سالہ بیٹی کو منوں مٹی تلے دبانے کے باوجود زندہ رہنا میری زندگی کا سب سے بڑا معجزہ ہے، ایک دکھی ماں کی کہانی

image
 
یہ ایک بہادر اور حوصلہ مند ماں کی کہانی ہے جو کہ سوشل میڈیا کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے اس کہانی کو ان ہی کی زبانی ہم آپ تک پہنچائيں گے- یہ کہانی پڑھ لو نامی سوشل میڈیا پیج پر شئیر کی گئی تھی-
 
نو مہینے کے بعد میں اس قابل ہو سکی ہوں کہ اپنی پیاری ، خوبصورت اور اکلوتی بیٹی کے بارے میں بات کر سکوں میری بیٹی جو نو سال کی تھی میرا پیار میری خوشی میرا سب کچھ تھی-
 
ایک صبح میرے لیے اتنی تباہ کن ثابت ہوئی کہ اس نے میرا سب کچھ ختم کر دیا آج میں ایک دکھی دل کے ساتھ اور بکھری ہوئی روح کے ساتھ تنہا ہوں اس کا ساتھ میرے لیے بہت خوبصورت اور حسین تھا مگر اس کی جدائی بہت المناک اور شدید ہے- اس سے پہلے ہم ایک خوشحال گھرانہ تھے جس میں میں میرا بیٹا اور میری بیٹی میرے ساتھ تھے -
 
ماہ وین میری بیٹی کے جدا ہونے سے قبل ہماری زندگی ایک مثالی زندگی تھی ہماری محبت کی مثالیں دی جاتی تھیں لوگ اکثر میرے بچوں کی تربیت اور ان کے اچھے اطوار کی مثالیں دیا کرتے تھے-
 
image
 
جولائی 2019کے درمیان میں ایک دن جب ہم پکنک پر گئے تو وہاں پر ماہ وین نے مجھ سے سانس میں تنگی کی شکایت کی- واٹر پارک میں ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے سلائڈز لیتے ہوئے وہ بہت خوش تھی یہ پہلی صحت کی حوالے سے شکایت تھی جو اس نے مجھ سے کی جس کے بعد ہفتوں تک دوبارہ ایسا موقع نہ آیا -
 
اس کے بعد اگست کے مہینے میں اس کے مسوڑھوں میں سوزش ہوئی اور ساتھ میں ہلکا بخار بھی ہو گیا میں اس کو ڈاؤ ہسپتال لے کر گئی جہاں پر معائنے کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ عقل داڑھ کے نکلنے کی وجہ سے ہے اس دوران بھی وہ باقاعدگی سے اسکول جاتی رہی ۔ اور چاک و چوبند تھی عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے بکرے کے ساتھ کھیلتی رہی اور میرے ایک کزن کی شادی میں بھی اس نے پر جوش انداز میں شرکت کی-
 
یکم ستمبر کو اتوار کا دن تھا دن بھر وہ اسکول میں ہونے والے ماہانہ ٹیسٹ کی تیاری کرتی رہی مگر 2 ستمبر کو اپنی طبعیت کی خرابی کے باعث اسکول نہ جا سکی حالانکہ اس نے اسکول جانے کے لیے یونیفارم بھی پہن لیا تھا مگر سانس میں تنگی کے باعث اسکول جانے کے قابل نہ تھی- میں اسے ہسپتال لے کر گئی مجھے یقین تھا کہ الم غلم کھانے کی وجہ سے اس کے اندر وٹامن بی 12 کی کمی ہو گئی ہے جس وجہ سے اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہے-
 
ڈاکٹروں نے اس کے کچھ ٹیسٹ کروانے کے لیے دیے جن کے بعد ڈاکٹروں نے جو مجھے بتایا اس نے میرے ہوش گم کر دیے- ڈاکٹروں کے مطابق میری پیاری بیٹی ماہ وین ایکیوٹ مائی لوائد لیوکیمیا جیسی موذی اور جان لیوا مرض میں مبتلا ہے- میرا ذہن اور دل اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے قطعی تیار نہ تھا کہ میری ہنستی مسکراتی بیٹی ماہ وین کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے-
 
میں ماہ وین کی ماں بہت کمزور ثابت ہوئی میں بری طرح ڈر گئی تھی میں ماہ وین کو کھونےکا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی- مگر میری بیٹی اس حوالے سے مجھ سے زیادہ بہادر ثابت ہوئی دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو کہ آتے تو کم وقت کے لیے ہیں مگر بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں ماہ وین بھی ایک ایسی ہی بچی تھی-
 
image
 
اس نے اپنی آخری پکنک یتیم خانے کے یتیم بچوں کے ساتھ منائی اس کے علاوہ ہم نیو کراچی اور خدا کی بستی جیسے علاقوں کے رہائشی تھے جہاں کے افراد کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہی ہے- اس میں ماہ وین ہمیشہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی پانی احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے کا درس دیتی نظر آتی- یہاں تک کہ اپنی بیماری کے باوجود اس نے انڈس ہسپتال میں بلڈ بنک کی جانب سے خون کے عطیات جمع کرنے کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا -
 
دنیاوی خدمات کے ساتھ ساتھ دین سے اس کی قربت حد سے زيادہ تھی اس نے نہ صرف رمضان کے پورے روزے رکھے بلکہ پندرہ شعبان کی رات جاگ کر سو نفل بھی ادا کیے- اگست کے آخر میں اس نے قبرستان جا کر اپنی قبر کی جگہ بہت بہادری سے خود منتخب کی- یہاں تک کہ 18 دسمبر 2019 میں ہماری پیاری اور بہادر بیٹی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی-
 
آج اگر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ معجزہ کسے کہتے ہیں تو میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ اپنی پیاری بیٹی کو منوں مٹی تلے دفن کر کے میرا آج تک زندہ رہنا ایک معجزہ ہی تو ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: