آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

وہ سحر جس کو یہ آنکھ تلاشتی ہے کہاں ملے گی؟
ظلمت کی جس تاریک فضا میں ہم آج یہ زندگی گزار رہے ہیں وہ زندگی ہر بڑھتے قدم پہ محوِ سوال ہے کہ اس شب کی تاریکی کو اب کونسی سحر چھٹاۓ گی.
کہنے کو ہم آج اس معاشرے کے مکین ہیں جو آزادانہ جدّت پر مبنی ہے مگر زرا گہرائی میں جائیے تو معلوم ہوگا یہ معاشرہ کتنا سطحی ہوتا جارہا ہے, آزادی کے نام پہ فحاشی عام ہوتی جارہی ہے, بدامنی آسمان کو چھورہی ہے تو روزمرہ کے جرائم تو عام سی بات ہیں.

مضحکہ خیز حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہم ان برائیوں کے اتنے عادی ہوگۓ ہیں کہ جب تک معاشرے میں کوئی بہت بڑا واقعہ رونما نہ ہو جاۓ یا ہمارا میڈیا صبح و شام چٹکلے مصالحوں کے ساتھ صبح و شام خبر نشر نہ کرکے ہمارے دماغوں میں خبر کو سرائیت نہ کردے ہمیں ہر جرم عام لگتا ہے. ہماری حالت تو واقعی مین ایسی ہی ہوتی جارہی ہے کہ...

عمر بھر ہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالبؔ
دھُول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے

یونہی کبھی ضمیر کے چکر میں آ کر اسلام کے نام پہ حاصل ہونے والے معاشرے کی اخلاقی زبوں حالی پہ غور کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ برائی کے سمندر میں غوطہ کھاتے کھاتے شائد اب کی بار ڈوب ہی جائیں گے اور جس سحر کی آس لیے ہمارے بزرگ امید کے دیے جلاۓ دعاگو ہیں, اسی آس کی پیاس میں اپنی اصل قیام گاہ پہ جا پہنچیں گے.

مسلمانوں کی عظیم شاندار کامیابیاں, عروج و بادشاہت کی زرّیں مثالیں تو چلّو بھر پانی میں ڈبونے کے مترادف ہیں کہ شہنشاہی و کامیابی کے تختے پہ دراز مسلمان اتنے سہل پسند ہوتے چلے گۓ کہ نہ صرف تخت و تاج گنوایا بلکہ زبوں حالی کو بھی اپنا مقدر بنایا کہ ایمان و یقین, اور تعمیری عمل سے یکساں دور ہوتے چلے گئے کہ مسلمان جس شان و شوکت کا حامل تھا پہلے مغربی قوموں کے محکوم ہوۓ... کچھ عرصے بعد آزادی کا نیا سویرا بھی لاۓ تو افسوس ذہنی غلامی کا علاج نہ کر پاۓ اور آج مغرب کی روش کو جدّت کا نام دے کر اسلامی شریعت سے کنارہ کش ہوۓ ہیں.

مفکّر اسلام, علامہ اقبال نے اس کیفیت کو کیا صحیح بیان کیا ہے...

لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
خشتِ بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز

جب ایسی منفی سوچیں ذہن کا احاطہ کرکے شرمندگی, خوف, اور مایوسی کے دلدل کی جانب دھکیلتی ہیں کہ اب کس سحر کے لیے لب کشائی کرتے ہو... وہ سحر جو طلوع ہونی تھی وہ تو ساڑھے چودہ سال قبل ہوچکی تھی.. یہ جہالت کی تاریکی میں واپس خود کو دکھیلنا تو ہمارا اپنا فیصلہ ہے تو پھر غم کس کا.
اس سے قبل کے ہم اس دلدل میں پورے دھنس جاتے کہ آیتِ قرانی ہمیں سہارا دے کے حوصلہ دیتی ہیں کہ شبِ ظلمت کتنی ہی تاریک و طویل کیوں نہ ہوں... سحر تو لازم ہے جو واقع ہو کے رہتی ہے.

وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پُورے کے پُورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
(سورۃ الصف :9)

جب ہدایت بھیجی جا چکی ہے تو پھر امید واثق ہے کہ قرآن کے نور سے ہی ہمارے اوپر تنا آسمان آئینہ پوش ہوگا اور یہ ہماری کوششوں اور نیتوں سے ہی ہوگا... نہ کے صرف آس اور دعا کے دیے جلاۓ رکھنے سے.

قدرت کا یہ قانون ایک حقیقت ہے کہ "وَتِلۡكَ الۡاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ النَّاس" یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ ( سورۃ آلعمران: 140)

مایوسی کی اس کشش سے یوں ہمیں یہ آیت کھینچ لاتی ہے کہ کندن سے ہیرا بننے کے لیے آزمائش تو لازم ہے جیسے مولانا ابوالکلام کے نزدیک "یہ گردش ایام قوموں اور ملتوں" جماعتوں اور لوگوں کے درمیان ہمیشہ جاری و ساری رہا کرتی ہے۔ اس کی گرفت سے دنیا کا کوئی شاہ نہیں بچ سکتا۔ یہ اٹل اور لازوال حقیقت ہے۔" جو اس کو پار کرگیا گویا اس نے میدان مار لیا. تو بہتر نہیں کہ ان مشکلات و آزمائشوں سے ایمان کی شمشیر اور اتحاد مضبوط ڈوڑی کو تھامتے نکلیں.
اس ضمن میں مولانا مودودی ؒ کی نصیحت پہ عمل کرنا ہی بہتر ہے جو احکامِ ربی کو یوں بیان کرتے ہیں؛

’’....اب انسانیت کا مستقبل اسلام پر منحصر ہے۔ انسان کے اپنے بنائے نظریات ناکام ہو چکے ہیں....اور انسان میں اب اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ پھر کسی نظریے کی تصنیف اور اس کی آزمائش پر اپنی قسمت کی بازی لگا سکے۔اس حالت مین صرف اسلام ایک ایسا نظریہ و مسلک ہے جس سے انسان فلاح کی توقعات وابستہ کر سکتا ہے ،جس کے لئے نوع انسانی کا دین بن جانے کا امکان ہے اور جس کی پیروی اختیار کرکے انسان کی تباہی ٹل سکتی ہے. ‘‘

دینِ حق کو سمجھیں... سمجھیں کے اللّہ تبارک و تعالیٰ کی ذات وہ نور ہے جس کے نور سے یہ کائنات منّور ہوتی ہے اور اس سحرِ نور کو دیکھنے کی بصارت فقط قرآنِ کریم کو سمجھنے سے ہی مل سکتی ہے. کہ ان شاء اللّہ سحرِ حق کے متلاشی عینی شاہد ہونگیں جب..

~ آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
 

Zuhaa Rehman
About the Author: Zuhaa Rehman Read More Articles by Zuhaa Rehman: 8 Articles with 10547 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.