سُنا ہے اس وقت دنیا پر کورونا(COVID-19) وائرس نامی ایک
متعدی بیماری کے بادل سایہ فگن ہیں ، دنیا میں کورونا کے آنے سے کیا کیا
نقصان ہوا؟ کیا کیا تبدیلیاں ہوئی اور مزید کیا ہوں گی؟ نمی دانم! البتہ
پاکستان میں کورونا وائرس کی گھنگھور گھٹاؤں کے آتے ہی چند ماہرینِ متعدی
امراض کا ظہور ہوا جنہوں نے ”آغا ماما کوئٹہ چائے ہوٹل“ پر بیٹھ کر خوب
تبصرے کئے۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں، عقیدت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے:
(1)کورونا وائرس آبادی کم کرنے کی ایک سازش ہے(2)یہ سب یہودی لابی ہے(3) یہ
عبادت گاہیں بند کرانے کی تدبیر ہے (4) کورونا چین کے شہر ووہان سے ابھرا
ہے کیونکہ وہ لوگ چمگادڑ اور دیگر گندے چرند پرند کھاتے ہیں(5)یہ وائرس
کوئی بیماری نہیں بلکہ امریکہ نے خوف کے مارے چین پر ایک حیاتیاتی ہتھیار
مسلط کیاہے (قطع نظر اس سے کہ تا حال امریکہ ہی اس سے زیادہ متأثر
ہے)(6)دنیا میں اس وقت کورونا وائرس نام کی کوئی چیز موجود نہیں، کوئی مریض
نہیں، کوئی ہلاکت نہیں، یہ سب عالمی طاقتوں کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے۔ وغیرہ
وغیرہ
لاک ڈاؤن کے باعث جب چائے کے ہوٹل بند ہوئے تو اس وقت ان ماہرین میں سے وہ
جو اس کو بیماری تسلیم کرچکے تھے انہوں نے چوراہوں پر بیٹھ کر اس کے چند
علاج بھی بیان کئے مثلاً: گرم پانی سے نہائیں، گرم پانی پئیں، لہسن کا
استعمال کریں، زیادہ سے زیادہ وقت دھوپ میں گزاریں وغیرہ وغیرہ اگر چہ کہ
رینجرز اور پولیس ان کے اس کار خیر میں ہمیشہ مخل رہی اور انہیں یکسوئی کے
ساتھ بیان کرنے نہ دیا لیکن خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ان ماہرین نے رینجرز
اور پولیس کے جھتروں کی باالکل بھی پرواہ نہیں کی اور کورونا سے متعلق سارے
اسرار فاش کر ڈالے۔
؏-کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
پاکستان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اس ضمن میں چند مشاہدات آپ کے سامنے
رکھتا ہوں:
پانچ روپے والی چیز دس میں فروخت ہوئی،ماسک و جراثیم کش سینیٹائزر کو اوقات
سے زیادہ عزت ملی، مساجد میں رمضان والا سماں دیکھنے کو ملا، یہ پہلی
بیماری تھی جس کے مریض کو لینے کے لئے ایمبولینس سے پہلے رینجر حاضرِ خدمت
ہوجاتی، گھر میں جو کچھ پکا بغیر کسی نخرے کے کھانا پڑا،بناؤ سنگھار کے اڈے
بند ہونے کی وجہ سے کچھ نایاب خلقت بھی سامنے آئی۔ سب سے حیران کن بات تو
یہ کہ جس وقت پوری دنیا اس وائرس کی تفتیش میں مصروف تھی ٹھیک اسی وقت
بلدیہ ٹاؤن، نئی کراچی اور دیگر کچھ علاقوں میں اس کی ویکسین اور عامل جنید
بنگالی وغیرہ کے اشتہار بھی دیکھنے کو ملے جن میں شرطیہ علاج کا دعوی حسب
معمول درج تھا البتہ علامہ لڈن جعفری صاحب نے تمسخر کے خوف سے اس کا علاج
بتانے سے صاف صاف انکار کردیا۔
یہاں وہ شاہین بھی قابل ذکر ہیں کہ جنہوں نے اس وقت سماجی روابط کی ویب
سائٹس پر لوگوں کی بے بسی اور خستہ حالی کے مناظر عوام کی خدمت میں پیش کئے
اگرچہ کہ وہ مناظر ہالی ووڈ کی فلموں کی شوٹنگ کے دوران کےتھے۔
کورونا وائرس پوری دنیا کے لئے پریشان کن رہا لیکن بھٹو صاحب نے اس کو خوب
انجوائے کیاکیونکہ اسی کی بدولت انہیں اکیلے پاکستان سپر لیگ دیکھنے کا
موقع ملا اور یہی نہیں بلکہ بارہا پیپسی کیچ آ کروڑ کے فاتح بھی قرار پائے۔
(ایک قول کے مطابق بھٹو صاحب انعامی رقم کورونا ریلیف فنڈ میں جمع کرواچکے
ہیں)
جہان تک بات کی جائے حکومت کی تو حکومت کے اس کے خلاف تمام اقدامات -سوائے
ڈبل سواری پر پابندی لگانے کے- انتہائی غیر معقول رہے،خاص طور پر ایران اور
دیگر سرحدوں سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ کا عمل نہایت قابل دید تھا :
مسافر حضرات اسکریننگ کے آلے کےآگے سے قریب 15کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار
سے گزر رہے تھے یا یوں کہہ لیں کہ دوڑ رہے تھے جسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا
کہ یہ اسکریننگ نہیں بلکہ ملک میں کورونا کو خوش آمدید کہا جا رہاہے! رہی
بات لاک ڈاؤن کی تو لاک ڈاؤن کرانے میں بھی حکومت مسلسل ناکام نظر آئی، کاش
انہوں نے اس کارِ خیر کے لئے الطاف بھائی کی خدمات حاصل کی ہوتیں اور وہ
کورونا کی بھی بوری بناتے! اس پر کف افسوس مَلنے کے سواکچھ نہیں۔ غریبوں کی
کفالت کرنے کے حوالے سے ہم حکومت کو کوئی دوش نہیں دیں گے کہ یہ کام ان کی
شان کے لائق نہیں۔
علمائے کرام کے بارے میں زبان دراز کرنے کو ہم اپنی عاقبت برباد کرنا
سمجھتے ہیں، اس موقع پر نہ صرف یہ کہ کئی لوگوں نے علما کی تضحیک کی بلکہ
حکومتی ادارے بھی نماز جیسی اہم عبادت پر انہیں اعتماد میں نہ لے سکے۔
دوسری طرف کچھ نام نہاد علما بھی منظر پر آئے جنہوں نے لوگوں کو اللہ
تعالیٰ کے احکام بتانے میں بہت خیانت کی۔العیاذ بااللہ
؎ احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پازند
جہاں تک بات کی جائے فلاحی اداروں کی تو حکومت کا کام انہوں نے اپنی اپنی
حیثیت کے مطابق بخوب انجام دیا اور غریبوں کے بند چولہوں کا سامان کیا، اس
سلسلے میں سیلانی ویلفئیر، جے ڈی سی، الخدمت ، دعوتِ اسلامی اور دیگر فلاحی
و غیر فلاحی اداروں نے عوام کی خوب خدمت کی۔ مذہبی اداروں کے بارے میں یہ
تأثر پھیلایا جاتا ہے کہ یہ لوگ انسانیت کی خدمت کو ترجیح نہیں دیتے لیکن
مشاہدہ نے اس تأثر کا بھرپور رد کیا کہ جب مشکل وقت آیا تو انسانیت کی
خدمت میں مذہبی لوگوں کو ہی زیادہ مصروف عمل دیکھا گیا۔
ہُو کے اس عالم میں جون صاحب کا ایک شعر بہت تیزی سے گردش کررہا تھا جو
ہمیں بھی کافی پسند آیا:
؎ اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
آخر میں ، میں تمام ارباب اقتدار، سیاست دان، وزرا، بیورو کریٹس، صحافی
حضرات، اطباء وغیرہ سے التجاء کرتا ہوں کہ براہ کرم کورونا کا بھی وہی حال
کردیں کہ جو آپ نے اس ملک کا کر رکھاہے۔
نوٹ: لاک ڈاؤن کے باعث ہم بھی دفتر نہیں جارہے تو سوچا ویلے پن کے ان قیمتی
لمحات کا کچھ فائدہ اٹھالیں اور تھوڑی سی چول ہم بھی مارلیں۔
|