اکیسویں صدی کا بڑا المیہ ۔جبر کا خاتمہ

اس مضمون میں جبر کے خلاف قدم اٹھانے پر اکسایا گیا ہے۔یہ ایک بہتری کی طرف مائل مضمون ہے

تحریر افضال ریحان جمعرات 08 / اکتوبر / 20201260

مسلم سوسائٹیوں کے کچھ حکمران اس بھول میں ہیں کہ وہ نظریہ جبر کی بدولت اپنی حکمرانی کا الو سیدھا کر لیں گے یا قدیمی ادوار جبر دوبارہ واپس لے آئیں گے۔ مسلم ممالک کے چند حکمران شاید نہ صرف خود دور سلطانی کے نشے میں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہ شراب طہور پلانا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں کئی ڈرامے بنائے اور دکھائے جا رہے ہیں۔ انہیں غور فرمانا چاہیے کہ آج کے دور میں قوم کو ایسے کسی سراب کا خواب دکھانا سوائے لولی پاپ کے اور کچھ نہیں۔ سلطانی جبر کے ادوار کو آپ کتنا ہی مقدس میک اپ کر کے دکھا لیں لیکن ان کی وحشت و بربریت ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ خونخوار ادوار پچھلی صدیوں میں چاہے جتنی طوالت بھی چل گئے۔ جہالت کی برکتوں سے چل گئے۔ جوں جوں انسانی شعور ارتقائی منازل طے کرتا گیا قہر سلطانی کی حدت و شدت کم سے کمتر ہو تی چلی گئی۔ تلک الایام قد خلت ، آج اکیسویں صدی میں انسانیت شعورو آگاہی اور ذرائع ابلاغ و مواصلات کے ساتھ جہاں پہنچی ہے کسی جابر ذہنیت کیلئے ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ پرانے نقشوں کی بحالی کا قلیل امکان بھی پیدا کروا سکے۔

اگر شیوخ کے خلاف بغاوتیں ہوں گی بھی تو وقت کا پہیہ پیچھے نہیں آگے کی طرف ہی گھومے گا۔ اس لئے معیاری رویہ یہ ہے کہ آپ منتخب پارلیمنٹ کی طاقت اور بالادستی پر یقین کرتے ہوئے منتخب قائد اتاترک کی قیادت میں بپا ہونے والی ترک جدوجہد کی کہانیاں دکھائیں اور مسلم ورلڈ کے سامنے اس جمہوری و آئینی انقلاب کو بطور ماڈل پیش فرمائیں جس نے ہر نوع کے جبر کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔

کرہ ارضی پر بسنے والے کسی ایک انسان کو بھی اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم آج اکیسویں صدی میں بس رہے ہیں، لیکن اکیسوی صدی کے تقاضے کیا ہیں؟ اس پر بہت مغالطے ہیں جو اقوام ان تقاضوں کو سمجھیں گی وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دنیا میں خوشحال بھی ہوں گی اور سربلند بھی رہیں گی۔ اس کے برعکس جو اقوام قدامت پسندی کے مقدس نشے میں چور اسی حجت بازی پر کمربستہ رہیں گی غربت، جہالت اور ذلت ان کا مقدر ٹھہرے گی۔

اب اس بات پر آتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے تقاضے کیاہیں؟ ان تقاضوں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن مختصر کالم کی محدودات کی خاطر ہم محض ایک تقاضے کا حوالہ دیتے ہیں۔ اولین جوہری تقاضا ہے ”جبر کا خاتمہ“۔ جبر چاہے جبے و عمامے کے تقدس میں آئے یا کسی اور یونیفارم کے رعب و داب میں، لٹھ تھامے آئے یا پتلی تماشوں کی صورت جلوہ گر ہو، جبر مذہبی، سیاسی، صحافتی اور سماجی ہو یا ریاستی و گروہی، کسی بھی شکل، حلیے، حجاب اور نقاب میں مہذب سوسائٹی کیلئے لعنت اور تباہی و بربادی ہے۔ جبر پراستوار سوسائٹی بظاہر خواہ کتنی ترقی کرتی دکھائی دے اس میں دوام ہرگز نہیں ہوتا۔ اندر سے کھوکھلی ہوتی ہے۔ اس کے شہریوں کی حقیقی ہمدردیاں کبھی بھی اس کے اجتماعی نظم کو حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے حریت فکر اور آزادی اظہار کا مقابلہ کرنے کی سکت اس میں نہیں ہوتی۔ ہرگز رتے لمحے خود ڈکٹیٹروں کو اس بظاہر وسیع و عریض مضبوط دکھتے سیٹ اپ کے زمین بوس ہو جانے کا خوف رہتا ہے۔

پچھلی صدیوں میں نظریہ جبر پر استوار بڑی بڑی سلطنتیں محض جبر اور طاقت کے زور سے اسی لئے چل گئیں کہ جہالت کے دوام اور ذرائع ابلاغ کے فقدان سے ان کو چیلنج کرنے والا شعور بالمقابل نہیں تھا۔ آج بھی جبر پر استوار ریاستیں مجبور ہیں کہ اپنے شہریوں کو جذباتیت و منافرت کی خوراکیں دیتی رہیں۔ جہالت کو تقدس کے ساتھ جوڑتے ہوئے خوشنما بنا کر پیش کریں۔ شعور کی چنگاری کہیں سے پھوٹے اس کو کچلیں لیکن کب تک؟ کس کے روکے سے رکا ہے سویرا؟ چلیں مان لیا وقتی طور پر آپ نے سویرا روک دیا لیکن کس قیمت پر؟ عوامی خوشیوں کے قاتل بن کر، جھوٹے اور جعلی پروپیگنڈے کے زور پر شعور کا گلا گھونٹ کر، جہالت کو تقدس کا پہناوا دے کر، آپ جبر کا نظام استوار کئے رکھیں لیکن اندر سے آپ خود بھی جانتے ہیں کہ حبس اور گھٹن جتنی زیادہ ہو گی ابررحمت بھی اسی شدت سے برسے گا۔

درویش سکول میں پڑھتا ایک چھوٹا بچہ تھا جب اس نے یو ایس ایس آر کو بمقابلہ یو ایس پڑھا اور پکار اٹھا کہ یہ سرد جنگ ہمیشہ نہیں چلے گی۔ جبر کی ریاست ایک دن دھڑام سے گرے گی۔ آج پھر یہ کہتا ہوں کہ نظریہ جبر پر استوار تمام ریاستیں اور ان سے وابستہ عقائد بالآخر اپنی موت آپ مریں گے۔ بہتر ہے جتنی جلدی ممکن ہو اپنے لچھن آپ بدل لیں ورنہ بیرونی توپ کا گولا اندرونی طور پر کھوکھلی عمارت کے پرخچے اڑا دے گا۔ غلامی محض غیر ملکی حکمرانی کی صورت نہیں ہوتی۔ بدترین غلامی خود اپنی قوم کے ڈکٹیٹروں کی مسلط کردہ ہوتی ہے۔ آج کون ہٹلر کی ڈکٹیٹر شپ میں جرمن قوم کو آزاد قوم کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے؟ نشیمن پر اپنے جو بجلیاں گراتے ہیں وہ غیروں سے بدتر ہوتی ہیں۔ غیروں کے خلاف اٹھنے والے تو ہر دور میں قومی ہیروز کہلائے ہیں لیکن یہ ستم بالائے ستم ہے کہ ان نام نہاد اپنوں کے مسلط کردہ اندرونی جبر و استبداد کے خلاف اٹھنے والے جانثاران حریت کو غداری کے طعنے اور وطن دشمنی کے پروانے بخشے جاتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں بلاسفیمی کے الزامات بھی عائد کر دیے جائیں، ورنہ کرپشن کا ریفرنس تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

آج اقوام عالم کے مذہبی رویوں کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ خوشگوار پہلو سامنے آتا ہے کہ سائنٹیفک اپروچ کے بالمقابل مذہبی عقائد کی گرفت اگر ختم نہیں ہوئی تو بڑی حد تک ڈھیلی پڑ چکی ہے یا نمائشی رہ گئی ہے۔ سوائے ہمارے عقیدے کے، جس کے پیروکاران میں ہنوز اتنی جان ہے کہ دیگر عقائد محض ہمارے ردعمل میں زندہ ہیں۔ بصورت دیگر اپنی آخری سانسیں لے رہے ہوتے۔ بالفرض مان لیتے ہیں کہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں سکون کی زندگی گزار رہے ہوتے تو بھی کچھ مضائقہ نہیں۔ کسی کو کیا تکلیف ہے، اگر عقائد اپنی حدود قیود میں جئیں اور سدا جئیں بس ممالک و اقوام کے اجتماعی نظم میں رخنے ڈالنے سے باز رہیں۔

اگر عقائد خود کو اخلاقیات تک یا اخلاقی اصلاح تک محدود کر لیتے ہیں تو یہ کلی خاتمے یا تاریخ کا محض حصہ بن کر رہ جانے سے کہیں بہتر صورتحال ہو گی۔ کیونکہ انسانی سماج یا نفسیات میں بالائی تقدس کا تصور جو آسودگی ، شانتی، سکون یا نروان بخشا ہے اور اس کے بغیر مراقبے و ریاضت میں جو خلا پیدا ہوتا ہے، وہ محض مادی اسائشوں سے پورا نہیں ہو سکتا۔

انسانی سماج اور اس کے امن و سلامتی کے سامنے عقائد کا چیلنج صرف اسی وقت درپیش ہوا ہے جب عقائد نے جائز حدود و قیود کو توڑ کر سوسائٹی کو اپنے جبری تسلط میں لینے کی کوشش کی ہے۔ اسی کو آج کی مہذب دنیا مذہب کا سیاسی استعمال قرار دیتے ہوئے اس سے چھٹکارا پانا ضروری سمجھتی ہے۔

صدیوں کے اس سیاسی استحصال کی تباہ کاریاں ملاحظہ کرتے ہوئے کوئی چارہ نہیں کہ یو این ہیومن رائٹس ڈیکلیئریشن کی مطابقت میں جس طرح انسانیت کے دیگر ضابطے طے کئے جا رہے ہیں۔ عقائد کو بھی ضوابط کے ڈسپلن کا پابند بنا دیا جائے۔

Shaheena Naeem
About the Author: Shaheena Naeem Read More Articles by Shaheena Naeem: 21 Articles with 15535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.