بحریہ ٹاؤن میں بڑھتی ہوئی چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں - ذمہ دار بحریہ کا کمزور ہوتا ہوا سیکورٹی سسٹم

image
 
بحریہ ٹاؤن راولپنڈی فیز 4 اسٹریٹ 33 میں چھ سال سے مقیم ایک رہائشی اپنی فیملی کے ہمراہ ایک دعوت سے واپسی پر جب اپنے گھر میں داخل ہوئے تو انہیں ایک سخت دھچکے کا سامنا کرنا پڑا- بکھرا سامان اور کھلے الماری کے دروازے اس بات کی جانب اشارہ کر رہے تھے کہ گھر میں چوری کی واردات ہوچکی ہے- جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ چور قیمتی زیورات اور لاکھوں روپے کی مقامی و غیر ملکی امانتاً رکھی گئی رقم بھی لے ُاڑے ہیں-
 
بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اور مقامی تھانے کی پولیس اپنی روایتی جانچ پڑتال کے بعد چلتی بنی لیکن جو ذہنی تکلیف اور مالی نقصان اس فیملی کو برداشت کرنا پڑے گا اس کا ذمہ دار کون؟ کیا یہ بحریہ ٹاؤن میں ہونے والی چند وارداتوں میں سے ایک تھی؟ یا متاثرہ شخص کو یقین ہے کہ بحریہ ٹاؤں کی انتظامیہ، پولیس کے تعاون سے چوروں کو ڈھونڈ نکالنے کی پوری کوشش کرے گی؟ جواب یقیناً نہ میں ہے- متاثر رہائشی نے ایف آئی آر درج کرانے میں درپیش مشکلات کا ذکر بھی کیا تو دوسری طرف اس وقت حیرت اس بات پر بھی ہوئی کہ جب بحریہ سیکورٹی کے ایک افسر نے یہ رائے دی کہ پرائیوٹ جاسوس کتوں سے چوروں تک پہنچنے میں مدد لی جاسکتی ہے- لیکن اس سروس کے لیے متاثرہ رہائشی کو 25 ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے-
 
اکثر رہائشیوں کا یہ کہنا ہے کہ راولپنڈی بحریہ میں گزشتہ چند سالوں سے ڈکیتی کی وارداتوں میں کافی اضافہ ہوچکا ہے- انتظامیہ بجائے اپنی سیکورٹی کو بہتر کرنے کے مزید ابتری کا شکار ہے- ایک رہائشی کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل بحریہ انتظامیہ کی طرف سے مختصر وقت کے لیے گھر سے جانے پر 6 گھنٹوں کے لیے مفت گارڈ سروس بھی فراہم کی جاتی تھی جو کہ اب ختم کردی گئی ہے-
 
بحریہ کراچی کی بات کریں تو یہاں بھی یہی صورتحال نظر آرہی ہے- سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہوئی اکثر ویڈیوز میں رہائشی اس بات کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ایک طرف نہ تو بحریہ ٹاؤن ہمیں اطمینان بخش سیکورٹی دے پا رہا ہے ارو دوسری جانب رہائشیوں کو اپنے سیکورٹی گارڈ یا آئرن گرل دروازوں اور کھڑکیوں پر لگانے کی شدید ممانعت ہے- اس صورتحال میں بحریہ ٹاؤن کے رہائشی انتظامیہ پر شدید تنقید کرتے نظر آرہے ہیں-
 
پاکستان کی مخصوص لاﺀ اینڈ آرڈر کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کو ایک مؤثر اور جامع سیکورٹی سسٹم اپنے رہائشیوں کو دینا ضروری ہوگا- تاکہ ایک طرف عوام میں اعتماد قائم رہے اور دوسری طرف بحریہ ٹاؤن پاکستان میں ایک مثالی ہاؤسنگ اسکیم کے طور پر اپنی شناخت کو قائم رکھ سکے-
YOU MAY ALSO LIKE: