نام نہاد دانشور

ہر مزاح کے پیچھے کچھ نہ کچھ تلخ حقیقت ہوتی ہے وہ حقیقت جو شاید سادہ لفظوں میں کسی بھی وجہ سے بیان کرنا مشکل ہوتی ہے،چنانچہ اس کے بیان کے لئے مزاح کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جس طرح ہمارے معاشرے میں دو رنگی، منافقت، ریاکاری اور جھوٹ فروغ پا رہا ہے اور جس طرح سچ کے اظہار پر سچ کہنے والے لوگوں کو بے وقوف اور احمق تصور کیا جانے لگا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے سچ لکھنے اورکہنے والے اب مزاح کا سہارا لیتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا ٹی وی پر ایک مزاحیہ پروگرام چل رہا تھا۔ایک صاحب ہوٹل میں بیٹھے کچھ کھا رہے تھے۔ ایک پلیٹ میں ٹماٹو کیچپ تھی۔ انہوں نے وہ ساری کھا لی اور بیرے کو کہا کہ کچھ اور کیچپ دو ۔بیرے نے وہ فوراً لا دی۔ انہوں نے وہ بھی کھا لی اور دوبارہ مانگی۔ تین چار دفعہ ٹماٹو کیچپ وصول کرنے اور اسے کھانے کے بعد انہوں نے بیرے سے کہا کہ تمہارے ہوٹل کی کھانے کی ساری چیزیں ہی لذیذ ہیں مگر اس کیچپ کا جواب نہیں۔ اس قدر مزیدار ہے کہ میں بار بار تمہیں تنگ کر رہا ہوں۔بیرے نے مسکرا کر کہا ،’’کوئی بات نہیں، جتنی مرضی کھائیں‘‘۔اگلا سوال انہوں نے کیا کہ بھائی بتاؤ یہ کیچپ کہاں سے لیتے ہو۔ بیرے نے مسکرا کر جواب دیا ہم کوئی چیز باہر سے نہیں لیتے۔ یہ خالصاً ہماری پراڈکٹ ہے۔

کچھ سوچ کر انہوں نے بیرے سے بڑی راز داری سے کہا کہ مجھے بتاؤ کہ بناتے کیسے ہو۔بیرے نے مسکرا کر ایک طرف اشارہ کیا۔ مکمل تیاری میں پانچ دن لگتے ہیں،وہ سامنے آپ کو پانچ بڑے ڈرم نظر آ رہے ہیں یہ بنیادی پلانٹ کا حصہ ہیں۔ ہر روز لوگ جو کھاتے ہیں اس کا بچہ کھچا ہم ایک ڈرم میں ڈالتے جاتے ہیں۔ ڈرم روٹی، بریڈ، سلاد اور طرح طرح کے سالن سے بھر جاتا ہے ۔ رات کو ہم اس ڈرم کو چار دن کے لئے بند کر دیتے ہیں۔ چار دن میں ساری چیزیں یک جان ہو جاتی ہیں۔ اس میں حسب ذائقہ نمک ،مرچ، لال رنگ اورٹماٹر کا تھوڑا سا ایسنس ڈال کر گرائینڈر میں پیس لیتے ہیں۔ شاندار کیچپ تیار۔ مگر ٹماٹر تو تم نے ڈالا ہی نہیں۔ بیرے نے ہنس کر کہا۔ ٹماٹر کی کیچپ میں اگر ٹماٹر کا استعمال کیا جائے تو جو کیچپ بنتی ہے اسے کوئی پسند نہیں کرتا۔ یہاں تو جتنی گندی چیزیں اور گندگی سے بنائی ہوئی چیزیں ہیں وہی لوگوں میں مقبول ہیں۔ آپ نے کبھی خالص دودھ پیا ہے۔ شہر میں وہ ملتا ہی نہیں ۔ اگر مل جائے تو پینے والے شہری کا معدہ خراب ہو جاتا ہے۔وہ جعلی دودھ کا اس قدر عادی ہے کہ اصلی دودھ اسے خراب نظر آتا ہے۔ شہر میں دودھ لانے والے اس میں پہلے برف ڈالتے ہیں کہ ٹھنڈا رہے اور جلدی خراب نہ ہو۔ پھر راستے میں کسی گندے تالاب کا پانی ملاتے ہیں کہ گاڑھا نظر آئے۔ سنکھاڑے کا آٹا ڈالتے ہیں کہ دودھ پر بالائی بہت موٹی آئے۔ خراب ہونے سے بچانے کے لئے جو سستی اور غلیظ چیزیں کیمیکل کے طور پر ڈالتے ہیں وہ بتا دوں تو آپ کو دودھ سے نفرت ہو جائے ۔ مگر یہ ہوتا ہے اور لوگ اسی دودھ کے عادی ہیں۔

وہ بہت کھل کر ہنسنے لگا۔ جناب کیا کیا بتاؤں۔ جن دنوں گدھے کا گوشت ہوٹلوں میں مل رہا تھا۔ ان دنوں اس گوشت کو بیچنے والے ہوٹلوں میں گاہکوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی تھی۔ ہماری قوم حرام کھانا زیادہ پسند کرتی ہے ۔ آپ سیاستدان دیکھ لیں، سرکاری ملازم دیکھ لیں، ٹھیکیدار دیکھ لیں یا کسی اور کو ، کسی نہ کسی صورت میں حرام کھاتا اور خوش نظر آتا ہے۔ میں نے اس سے کہا، بھائی کھانے تک ہی محدود رہو۔ میں اپنے ملک کے معزز۴ین کی دل آزاری پسند نہیں کرتا۔ وہ کھل کر ہنسے لگا۔ کہنے لگا کبھی گوجرانوالہ گئے ہیں۔ لوگ بڑے شوق سے وہاں کے ریسٹورنٹس میں جاتے ہیں کہ وہاں بڑے سائز کے چڑے ملتے ہیں۔ چڑیا تو ایک ننھا منا سا پرندہ ہے جو ایک خاص حد سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ وہ کوے اور لالیاں قتل کرکے چڑیا کے نام پر لوگوں کو حرام کھلا دیتے ہیں اور ہمارے لوگ اس قدر سادہ یا احمق ہیں کہ غور نہیں کرتے کہ چڑیا اس قدر بڑی کیسے ہو سکتی ہے ۔

میں سوچ رہا ہوں کہ وہ بیرا سچ کہتا ہے اس ملک کا مزاج عجیب ہے ۔ یہاں کوئی چیز معیاری اور خالص نہیں ہوتی اور سچی بات یہ ہے کہ معیاری اور خالص کچھ ہو بھی تو یہاں کے لوگوں کو پسند ہی نہیں۔حد تو یہ ہے کوئی سچا اور دیانتدار شخص بھی لوگوں کی نظروں میں نہیں جچتا۔ لوگوں کے اپنے ہی معیار ہیں ۔ اپنے خاص پیمانے ہیں جو دنیا بھر سے الگ اور یکتا ہیں۔دنیا بھر میں کھانے اور پینے کی چیزوں میں ملاوٹ انتہائی سنگین جرم ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں ملاوٹ کے بغیر کوئی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ملاوٹ کی یہ حد چیزوں سے بڑھ کر انسانوں تک بھی پہنچ چکی ہے۔ ہمارے دانشور ، ہمارے اہل علم ہمارے اساتذہ ، ہمارے صحافی، جس پر بھی نظرڈالیں کامیاب وہی ہیں جو اپنی تقریر، اپنی تحریر، اپنے اعتقاد، اپنے افعال اور اپنے کردار میں اصلی اور خالص نہیں ہیں ۔ ان لوگوں میں اگلی صفوں میں جو نظر آتے ہیں وہ حقیقت میں نام نہاد دانشور (pseudo intellectual) ہیں۔ ان لوگوں کی اپنی کوئی سوچ نہیں۔ ان کی سوچ ان کی وابستگی ہے، ان کا تعصب ہے جو انہیں ایک مخصوص دائرے سے باہر نہیں آنے دیتا ۔ جس کے باعث ان کی سوچ محدود ہے، اصلی ، خالص اور دیانتدارانہ نہیں۔

امریکہ میں مقیم میرے ایک دوست نے سوال کیاکہ بعض لوگ فوج کے خلاف لکھتے ہیں، حکومت پر بے جاہ تنقید کرتے ہیں، زبان بھی انتہائی گھٹیا استعمال کرتے ہیں اس کے باوجود انہیں گلہ ہے کہ پاکستان میں تحریر اور تقریر کی آزادی نہیں۔ وہ جو کچھ لکھتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی لکھنے کا امریکہ اور یورپی ممالک میں تصور نہیں۔ ان کی تحریروں سے لگتا ہے جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس قدر مادر پدر آزادی اور اس پر بھی گلہ۔ میں کیا جواب دوں ۔ ہمارے نامور لکھنے والوں میں بہت کم دیانتدارانہ انداز میں اپنا ذاتی نقطہ نظردیتے ہیں، زیادہ تر حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی ایک سے وابستہ ہیں ۔جنہوں نے اپنے مفادات کسی نہ کسی صورت وصول کرلئے ہوتے ہیں یا کر رہے ہوتے ہیں ، باقی اس لئے پھدکتے ہیں کہ امید سے ہوتے ہیں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501278 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More