حیدر کی تلوار تھا وہ

جانے والا بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔بہترین منتظم، لائق تکریم مدرس،شفیق مہتمم اور باکمال خطیب ۔ وہ عربی، فارسی، اردو،انگلش اور پشتو زبان پہ قدرت رکھتے تھے۔ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ جو بات ان کے دل میں گھر کرلیتی اسے پوری کرکے ہی چین سے بیٹھتے۔ ان کا سب سے بڑا وصف شجاع ہونا تھا۔ خوف کی خا انھیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ جو بات دل میں ہوتی وہی زبان پہ ظاہر ہوتی۔

مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کی عمر 63سال تھی۔عالم اسلام کے معروف علمی شخصیت شیخ الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان کے بڑے صاحبزادے تھے۔

1973ء میں دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ سے ہی سند فراغت حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے1976 بی اے ہیومن سائنس،1978میں ایم اے عرابک اور 1992 میں اسلامک کلچرمیں پی ایچ ڈی کی۔ 1980ء میں اردو انگلش اور عربی میں چھپنے والے رسالے الفاروق کے تاحال ایڈیٹر ر تھے۔ تحریک سواد اعظم میں اپنے والد محترم مولانا سلیم اﷲ خان کے شانہ بشانہ رہے،1986ء سے 2010 تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے سیکرٹری جنرل رہے اور اسی دوران آپ نے اپنے والد سے مل کر جامعہ کے بہت سے تعلیمی وتعمیری منصوبوں کی تکمیل کی۔

کچھ عرصہ امریکا میں مقیم رہے۔ جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹرقائم کیا۔ملائیشیاکولالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010ء سے 2018 تک کلیۃ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دی۔ 2018 میں ریسرچ وتصنیف وتحقیق میں ملائیشیاہائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائف اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایوارڈآپ کو ملیشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔

وفاق المدارس المدارس العرابیہ کے مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو اور عربی ادب جیسے موضوعات پر دلچسپی رکھتے تھے۔

2017ء میں والد مولانا سلیم اﷲ خان رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے انتقال کے بعد دوستوں اور جامعہ فاروقیہ کے مخلصین کے اصرار پرپاکستان واپس آئے۔ دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم ونسخ سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل اپنے بھائی مولانا عبیداﷲ خالد کے حوالے کرکے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے۔

وہ متحرک انسان تھے۔ ہمیشہ کسی سرگرمی میں مصروف رہتے۔ مجھے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ مشکوٰۃ المصابیح اور صحیح البخاری ان سے پڑھی۔ کچھ عرصہ قبل جدید طرز پہ اردو رسالہ کے اجراء بابت اجلاس بلوایا۔ مفتی صابر نے راقم کا نام بھی پیش کیا۔ انہوں نے مجھ سے رابطہ کا سندیسہ دیا۔ ان دنوں خلاف معمول وہ کچھ زیادہ ہی متحرک ہوگئے تھے۔ جامعہ فاروقیہ کے مدرس، برادرکبیر مفتی حبیب حسین کا ان سے قریبی تعلق تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج کل وہ دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ کثرت سے اپنی شہادت کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ادھورے کام جلد مکمل کرنے کی کوشش کرتے۔ حال ہی میں ان کی کتاب’’تاریخ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی پہلی جلدمنصہ شہود پر آئی ہے۔

بلاشبہ ان کا سب سے بڑا وصف جری ہونا تھا۔ وہ بڑی جرأت اور استقامت کے ساتھ قدم اٹھاتے اورپیچھے دیکھے بغیر کام یابی کے جھنڈے گاڑتے چلے جاتے۔وہ درد دل رکھنے والے انسان تھے۔ دس محرم الحرام کو جب کراچی کی شاہ راہ پر صحابہؓ کی گستاخی کی گئی تو وہ تڑب اٹھے۔ یہی تڑپ تھی جو انھیں بے چین کیے دے رہی تھی۔ انہوں نے عزم کیا کہ جب تک رسول اﷲ ﷺ کے جانثار صحابہؓکی عظمت کا تحفظ یقینی نہ بناؤں چین کی نیند نہیں سوؤں گا۔ وہ گستاخان صحابہ کے خلاف حیدر کی تلوار بن گئے۔ہر فورم پہ انھیں للکارا۔اس کے لیے وہ ہر در پہ گئے۔امت کا دکھ درد لیے وہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی کے پاس دارالعلوم کراچی بار بار حاضر ہوتے۔بروز ہفتہ ۲۲صفر المظفر بمطابق ۱۰اکتوبرکے دن بھی وہ مفتی صاحب سے ملنے کے بعد مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے گھر جارہے تھے۔ راستہ میں مٹھائی کی دکان پر رکھے، بیٹے مفتی عمیر عادل دکان کی طرف گئے، اتنے میں درندوں نے حملہ کرکے انھیں ڈرائیور سمیت شہید کردیا۔اتوار کی صبح ۹ بجے جامعہ فاروقیہ فیز ٹو میں ہزاروں عقیدت مندوں نے نمازہ جنازہ پڑھی۔ حقیقی بیٹوں مفتی انس عادل اور مفتی عمیر عادل کے علاوہ ان کے ہزاروں روحانی بیٹوں نے ان کے جنازہ میں ان کا مشن پورا کرنے کا عزم کیا ۔

 

Ibrahim Hussain Abdi
About the Author: Ibrahim Hussain Abdi Read More Articles by Ibrahim Hussain Abdi: 60 Articles with 64088 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.