"مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی” بےروزگاری بھی ایک لعنت ہے جو
اپنے ساتھ دوسری بہت سی مصیبتیں لے کر آتی ہے۔ بے روزگاری، مفلسی، بھوک اور
بیماری کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ان کا اثر ایک طرف تو بے روزگار
شخص اور کنبے کے تمام افراد کی جہالت، بدحالی اور پریشانی کی شکل میں ظاہر
ہوتا ہے، دوسری طرف بے روزگاری اور غریبی کی وجہ سے طرح طرح کی اخلاقی اور
سماجی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔
چوری، ڈاکہ زنی، بے ایمانی کے واقعات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ان
جرائم کا ایک بڑا سبب بے روزگاری اور مفلسی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کے انفرادی
اور سماجی نقصانات کے علاوہ سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ بے روزگاری کا
اثر ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ دنیا کی نظر میں وہ ملک پسماندہ
اور غیر ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے جو اپنے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو
نوکریاں بھی فراہم نہیں کرسکتا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بیروزگاری کا
مطلب ہے ملک کے تعلیمی منصوبوں سے جو ملک کو ترقی اور فائدہ ہونا چاہیے تھا
وہ سب بیکار اور ضائع ہو رہا ہے۔
آزادی ملنے کے بعد پاکستان میں صنعتی ترقی کی رفتار 60 کی دہائی مِن بہت
تیز رہی۔
ملک میں نئے نئے کارخانے اور صنعتیں وجود میں آئیں۔
بعد ازاں ٹیکنالجی اورجدید مشینوں کی وجہ سے چھوٹی صنعتوں میں کمی ہونے لگی
اور بہت سے کاریگر بے روزگار ہوگئے۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں جہاں صنعتی انقلاب
آیا ہے وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بے کاری کا سامنا کرنا پڑا۔ جو کام
بہت سے کاریگر گھنٹوں میں کرتے تھے مشینیں اس کام کو منٹوں میں کردیتی ہیں
اور زیادہ خوبصورتی سے کرتی ہیں۔مشینیں جہاں بہت سے کاریگروں کو بیکار کرتی
ہیں وہاں طرح طرح کے نئے کام بھی مہیا کرتی ہیں۔ ملک میں خوشحالی لاتی ہیں
اور لوگوں کا معیار زندگی بلند کرتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں صنعتی ترقی کے
فائدے اتنے نمایاں نہیں ہوئے جتنے ان کے نقصانات۔ صنعتی ترقی سے بہت کم
لوگوں کو روزگار ملا اور بہت بڑی تعداد کو بے روزگاری کا منہ دیکھنا پڑا۔
اس کی شاید یہ وجہ تھی کہ ہمارا ملک صنعتی تعبدیلی کے لئے پوری طرح تیار
نہیں تھا۔
صنعتی زندگی دور سے دیکھنے میں بہت پرکشش اور رنگین نظر آتی ہے۔ دور دور کے
دیہاتوں اور قصبوں میں لوگ شہری زندگی کا ذکر بڑی دلچسپی اور شوق سے سنتے
ہیں۔ بہت سے لوگ آسمان سے باتیں کرنے والی عمارتوں، سینما، ریل، نئے ماڈلز
کی کاریں، ہوٹل اور تفریح گاہوں کے شوق میں گاؤں چھوڑ کر شہر میں نوکری
کرنے کے لئے آتے ہیں۔ بہت سے بڑے بڑے کارخانوں کا ذکر سن کر روپیہ کمانے کی
دھن میں شہر میں بستے ہیں۔ لیکن جب کام تلاش کرنے والے زیادہ اور نوکریاں
کم ہوں تو بے روزگاری بڑھتی ہے۔
یہی حال تعلیم کا بھی ہے۔
ملک میں یونیورسٹیز کی تعداد میں بہت حد تک اضافہ ہو چکا ہے جس میں
پرائیویٹ یونیورسٹیز کا بھی بڑا حصہ شامل ہے۔ کالجوں اور اسکولوں کی تعداد
میں جو اضافہ ہوا ہے وہ اور بھی کہیں زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ کہ کالجوں اور
یونیورسٹیوں سے ہر سال جتنے طلباء پڑھ کر نکلتے ہیں ان میں سے بہت کم
نوکریاں حاصل کرتے ہیں اور بیشتر نوجوان نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرتے
ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں ہر سال کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا
رہا ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اس صورتحال کی ایک بڑی ذمہ دار موجودہ تعلیمی پالیسی ہے۔ جو کہ فرسودہ اور
طبقاتی نظام کی عکاس ہے ہماری بیشتر تعلیم محض نصابی ہو کر رہ گئی ہے جو کہ
عملی زندگی اور مختلف پیشوں میں کوئی فائدہ یا مدد نہیں دیتی۔ دوسری کمی یہ
ہے کہ تعلیم میں ملکی ضرورت کا صحیح خیال نہیں رکھا جاتا جس وجہ سے بہت سی
ڈگریاں کسی نوکری کے حاصل کرنے میں مددگار نہیں ہوتیں۔
آج کل ملک میں انجینئروں کی بے روزگاری کا مسئلہ بھی کافی اہم ہے۔
بیروزگاری کو دور کرنے کے لیے ملک کو اپنی صنعتی اور تعلیمی پالیسیوں پر
دوبارہ غور کرنا ہوگا۔
صنعتی ترقی کا مطلب صرف نئے نئے کارخانے کھول دینا ہی نہیں بلکہ ملکی
خوشحالی بھی ہے۔
ملک میں بہت سی ایسی صنعتوں کے امکان موجود ہیں جو بے روزگار لوگوں کو
روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔ تعلیم کو صنعتی اور ملکی ضروریات کے لحاظ سے نئی
شکل دینا چاہیے تاکہ جو لوگ تعلیم حاصل کرکے نکلیں وہ ملک کے لیے کار آمد
ثابت ہو سکیں۔ تعلیم میں فنی اور عملی صلاحیتوں پر زیادہ زور ہونا چاہیے
اور صرف انہی لوگوں کو اعلیٰ تعلیم دینی چاہئے جن میں واقعی اس کی صلاحیت
ہو۔ باقی لوگوں کو زراعت، تجارت یا دوسرے فنون کی تربیت دینی چاہیے تاکہ وہ
آئندہ زندگی میں اپنے خاندان اور ملک کے دوسرے لوگوں پر بوجھ نہ بنیں بلکہ
اپنی روزی خود کما سکیں۔اسطرح کچھ حد تک ملک سے بیروزگاری کا مسلہ حل ہو
سکتا ہے۔
نئی تعلیمی پالیسی سے کافی امیدیں وابسطہ ہیں بس اس کی راہ میں جوتعلیم
دشمن رکاوٹیں حائل ہیں وہ موجودہ حکومت کا اصل امتحان ہے کہ وہ کیسے اس سے
نبرد آزما ہوتی ہے۔ |