وطن عزیز میں رہنے والے بے شمار لوگ ازخود اور بہت سے
ہارٹ و بلڈ پریشر کے مریض ڈاکٹر کے مشورے بعد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ
خبر اخبار سے جتنا دور رہا جائے زندگی اتنی ہی پر سکون گزرے گی.
دیکھا جائے تو ایک حد تک یہ بات درست ہے اور ایسا کرنے میں کوئی حرج بھی
نہیں، لیکن دوسری طرف اگر آج کل ہونے والے واقعات پر نظر ڈالیں تو ان میں
سے بعض ایسے ہولناک و دلخراش ہیں کہ نہ صرف لمحوں میں زبان زد عام ہوگئے
بلکہ کوئی بھی کسی بھی وجہ سے کتنا ہی خود کو ان کے بارے خبروں سے دور
رکھنا چاہتا تھا وہ غیر متعلق نہ رہ سکا.
ہمارے ہاں کے نام نہاد لبڑلز و موم بتی مافیا نے بھی ان مواقع سے پورا پورا
اور بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے "عورت کارڈ" کھیلنا شروع کر دیا، حالانکہ ان
واقعات کے متاثرین میں عورتوں کے علاوہ کم عمر لڑکیوں اور یہاں تک کہ لڑکوں
کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے.
پورے ملک کا ہر طبقہ اپنی اپنی سمجھ بوجھ و ذہنی استعداد مطابق بحث مباحثوں
میں الجھ گیا کہ دراصل ان واقعات کے اسباب ہیں کیا اور ذمہ داران کون؟
کچھ نے ہمارے معاشرے کو "مردوں کا معاشرہ" قرار دیتے ہوئے ان واقعات کی وجہ
"مرد" کا وحشی پن و حیوانیت بیان کی، اور کچھ نے "عورت" کو دی جانے والی
مادر پدر آزادی، فحاشی و عریانیت.
اسی طرح کچھ کی طرف سے جواباً دلیل پیش کی گئی کہ تالی دونوں ہاتھوں سے
بجتی ہے لہذا صرف "مرد" کا وحشی پن و حیوانیت نہیں" عورت" کو ملی مادر پدر
آزادی، فحاشی و عریانیت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے، اور کچھ کے مطابق اگر ایسا
ہے تو متاثرین میں چند سال، ماہ یہاں تک کہ چند دن کے بچے و بچیاں کیوں
شامل ہیں؟
دونوں اپنی اپنی جگہ مطمئن اور ڈٹے ہوئے ہیں کہ وجہ جو وہ بیان کر رہے ہیں
درست ہے، اور ان کی خواہش مطابق ہی اس کا سد باب کیا جانا عین انصاف ہو گا.
بات چونکہ انصاف کی ہے تو ضروری ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر غیر
جانبداری برتی جائے، اور پھر تجزیہ کیا جائے کہ اسباب کیا ہیں؟ حل کیا ہے
اور اصل ذمہ داران کون ہیں؟
آیا صرف "مرد" کی حیوانیت و وحشی پن یا "عورت" کی مادر پدر آزادی، عریانی و
فحاشی بھی؟ تاکہ کسی سے زیادتی کا رتی بھر احتمال بھی نہ رہے.
عالمگیر سچائی یہ ہے کہ اس قسم کی کنفیوژن صرف وہاں ہو سکتی ہے جہاں
انسان خود اپنے طور پر معاشرے کے لئیے معیار طے کرنے کی کوشش کرتا ہے.
پوری دنیا میں کہیں پر بھی کسی اسلامی معاشرے میں تو نعوذبااللہ ایسی
کنفیوژن کی گنجائش ہی نہیں، کیونکہ مرد و عورت کی ستر پوشی و برہنگی سمیت
تمام معیار اللہ پاک کے طے کردہ اور نبی کریم و قرآن حکیم کے بیان کردہ
ہیں.
اللہ پاک جو بلا شرکت غیرے خالق کل کائنات ہے نے انسانی اعتبار اور حیثیت و
مرتبے میں تو عورت و مرد کو برابری کی بنیاد پر تخلیق فرمایا لیکن اپنی کسی
حکمت کے باعث جسمانی طور پر "مرد" کو سخت و طاقتورجبکہ "عورت" کو کمزور و
نازک رکھا، اور ساتھ ہی ساتھ ان میں ایک دوسرے کے لئیے بے پناہ کشش بھی
پیدا کر دی.
اس کے بعد اس پاک ذات نے ہمیں ہمارے آپس کے رشتوں سے روشناس کرایا، محرم و
نا محرم بتائے، ان کے مابین حقوق و فرائض سمجھائے اور صنفی
برابری کو برقرار رکھتے ہوئے کسی رشتے میں "عورت" اور کسی میں "مرد" کو
برتری سے نوازا تاکہ اسلامی معاشرے میں بیلنس قائم رہے، ساتھ ہی اس ذات
کریم نے مسلمان عورت و مرد کو پہننے اوڑھنے کے آداب بھی سکھا دئیے.
اس سب کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اللہ پاک جو خالقِ حقیقی ہے جانتا ہے کہ
"انسان" جو خود ایک تخلیق ہے کبھی خود سے اپنے بارے حقیقی معنوں میں صحیح و
غلط کا فیصلہ نہیں کر پائے گا کیونکہ وہ اپنی Specifications اور Features
کو پوری طرح نہیں جان سکتا.
"عورت" کی جسمانی ساخت اور خدوخال کو نمایاں کرتا لباس اور مغربی معاشرے
سا آزاد، بے باک و بے تکلف رویہ لازماً جذبات برانگیختہ کر کے منفی ذہن
سازی کا باعث بنتا ہے، جس سے بظاہر انسانی شکل لیکن زندگی میں مختلف
محرومیوں و ناکامیوں کے باعث احساس کمتری اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو
کر بیمار ذہن لوگ (مرد جو جسمانی طور پر طاقتور بھی ہے) باطنی طور پر وحشی
درندوں کا روپ دھار لیتے ہیں، جو دنیا کے ہر معاشرے میں کم و بیش پائے جاتے
ہیں ان کا موقع ملنے پر Manic و متشدد ہو کر اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لئیے
معاشرے میں سے کمزور ترین کا انتخاب کر کے چاہے وہ چند سال، ماہ یا دن کی
کوئی "معصوم کلی" ہی کیوں نہ ہو مسل ڈالنا کوئی اتنی نہ سمجھ میں آنے والی
بات نہیں.
مجھ ناچیز کی ناقص رائے میں تو بہتر یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی بحث میں
الجھنے کی بجائے ہم اپنے معاشرے کو "اسلامی معاشرہ" بنانے کی کوشش کریں،
تاکہ نہ تو کوئی "مرد" کسی محرومی کے باعث نفسیاتی مرض کا شکار ہو کر وحشی
درندے کا روپ دھارے اور نہ کوئی "عورت" اپنی جسمانی ساخت و خدوخال کی نمائش
کر کے کسی کے لئیے منفی ذہن سازی کی وجہ بنے.
فیصلہ بہرحال آپ سب کو اللہ پاک کی دی ہوئی توفیق سے خود کرنا ہے.
|