نونہال مزدور :-
اسلام وعلیکم قارئین آج میں آپ تک جو تحریر پہنچا رہی ہوں ۔وہ میری اب تک
کی تحریروں میں سب سے اہم موضوع پر ہے ۔ آپ سب اس تحریر کے عنوان سے ہی
سمجھ چکے ہوں گے کہ آپ کس بارے میں پڑھنے جا رہے ہیں ۔
معزز قارئین جب بھی ہم گھر سے باہر اپنے روز مرہ کے کاموں کو سرانجام دینے
نکلتے ہیں ۔تو ہمیں اپنے آس پاس ، ارد گرد بہت سے ننھے مزدور نظر آتے ہیں ۔
کبھی گاڑیوں کا شیشے صاف کرتے ، کبھی پھول بیچتے , قلم یا کوئی اور سٹیشنری
کی چیز بیچتے ۔ کبھی کوئی ننھا منا کسی درخت کی چھاؤں میں بوٹ پولش کرتا ۔
تو کہیں کسی ہوٹل پر ویٹری کرتا ۔
یہ ننھے مزدور جن کی بے فکری کی عمر کو روزی روٹی کی فکر میں ڈال دیا گیا ۔
ایک طرح سے ان کا بچپن ان سے چھین کر ان پر زندگی کے خرچوں کا بوجھ ڈال دیا
گیا ۔ وہ بوجھ جو ایک ذمہ دار انسان تعلیم ، ہنر اور مہارت جیسے ہتھیاروں
سے لیس ہو کر بھی بہ مشکل اٹھا پاتا ہے ۔ وہ بوجھ ان ننھے ہاتھوں نے بنا
شکایت کے اٹھا رکھا ہوتا ہے ۔
اور ہم بہ حیثیت ایک ذمہ دار شہری کیا کرتے ہیں ان معصوموں کے ساتھ ۔ ہم ان
کو آتے جاتے جھڑکیاں دیتے ہیں ۔ دھتکارتے ہیں ۔ہم دو چار روپے ایک ہٹے کٹے
فقیر کو تو دے دیں گے پر ان معصوموں کو جو محنت کر رہے ہیں ان سے نہ تو کام
کروائیں گے اور اگر کچھ کامُ کروا بھی لیں گے تو اجرت پر ڈانٹ ڈپٹ کر پورے
پیسے بھی نہیں دیں گے ۔
کبھی سوچا ہے آپ نے ۔ یہ کیا کر رہے ہیں آپ ؟ وہ جو اپنی عمر سے بڑے کام کر
رہا ہے اس کے سامنے کتنی چھوٹی بات کر رہے ہیں ۔ بجاۓ اس کی تعریف کرنے کے
ہم اس پر تنقید کر رہے ہیں ۔ اور خود کو بہت سمجھ دار جان کر بڑے فخر سے
ذکر کرتے ہیں کہ یہ بچے بہت تیز ہوتے ہیں دو روپے کی چیز چار میں بیچتے ہیں
۔بہت شرم کی بات ہے جناب یہ کام اگر آپ کریں تو آپ بہترین سیلز مین اور اگر
کوئی معصوم کرے تو وہ چالاک ہو گیا ۔ آپ کریں تو آپ کی پروموشن ہوتی ہے اور
وہ حالات کے مارے بچے کریں تو ان کا مقدر ڈانٹ اور پھٹکار ۔ ہم یہ دوغلہ پن
کب تک کرتے رہیں گے ۔
کچھ دن پہلے ایک بہت قریبی جاننے والی خاتون کے ساتھ کسی جگہ جاتے ہوۓ
راستے میں سگنل پر گاڑی رکی تو ایک بچہ پین بیچتا آگیا ۔ ان خاتون نے فوراً
پوچھا کتنے کا ہے بیٹا بچے نے قیمت بتائی خاتون نے پرس کھول کر پیسے نکالے
اور اس سے ایک پین لے لیا اور ساتھ ہی اس بچے کا شکریہ بھی ادا کیا اور اس
کی تعریف بھی کی کہ کتنے بہادر ہو آپ اتنی چھوٹی عمر میں اتنی محنت سے پیسے
کما رہے ہو شاباش خدا تم کو کامیاب کرے۔ جب وہ پین اپنے پرس میں رکھ رہی
تھی تو میری نظر اتفاق سے پڑی کہ ان کے پاس تو پین موجود تھے ۔میں نے سوال
کیا کہ یہ کیا آپ کے پاس تو پین موجود ہے ۔
قارئین ان کے جواب نے مجھے رُلا دیا ۔ انھوں نے کہا ۔ میں نے دس روپے کا
نیا پین اس لیے خریدا کہ اس بچے کے اچھے کام یعنی محنت میں مدد کر دوں اور
حوصلہ افزائی بھی۔ دن بھر میں نہ جانے کتنے لوگوں سے جھڑکیاں سنے گا ۔ سارہ
دن دھوپ میں کھڑا بچہ محبت کا تو حقدار تو بنتا ہے ۔ اس جواب نے مجھے سچ
میں شرمندہ کر دیا۔
میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں آپ اگر ان بچوں سے کچھ خریدنا نہیں چاہتے تو
نہ خریدیں پر دو لفظ محبت اور ہمدردی کے ، حوصلہ افزائی کے الفاظ ان کے
روکھے پھیکے پچپن میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن سکتے ہیں ان کو محنت کرنے کا
حوصلہ دے سکتے ہیں ۔ اور ان کو یقین دلا سکتے ہیں کہ انسانیت ابھی باقی ہے
اور خدا آپ کو اس کا اجر دے گا ۔
|