والدین کی موت کے وقت میری عمر صرف سترہ سال تھی، ماں باپ کے بعد پانچ بہن بھائیوں کو بہادری سے سنبھالنے والی ایک کم عمر لڑکی کے حوصلوں کی داستان

image
 
والدین کا ہونا ایک خاندان کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے اس کی قدر ان سے پوچھی جائے جن کے سروں پر ماں باپ کے نام کا سایہ نہیں ہوتا- یتیمی اور یسیری انسان کے اپنوں کو بھی بے گانہ کر دیتی ہے اس صورتحال میں بیک وقت پانچ بچوں کو سنبھالنا ان کے لیے ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کرنا ایک بہت ہی مشکل صورتحال ہے اور اس امتحان کو بڑے بڑے کامیابی سے پار نہیں کر سکتے ہیں- مگر جب ان تمام حالات کا سامنا ایک سترہ سالہ کم عمر لڑکی کوکرنا پڑے تو پھر اس صورتحال کو سنبھالنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے-
 
یہ کہانی امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے ایک چھوٹے سے شہر اورلانڈو کی ہے جو کہ ایک نیوز چینل کے ذریعے سب کے سامنے آئی جہاں پر رہنے والی سمانتھا جب صرف سترہ سال کی تھی تو اس وقت اس کو پتہ چلا کہ اس کی ماں لیزا کو کینسر ہے اور اس سے پہلے کہ وہ حالات کو سمجھ سکتی اس کی ماں پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی-
 
image
 
مشکل کے اس وقت میں ان کا آخری سہارہ ان کے والد الیگزنڈر ہی رہ گئے جو کہ محبت کرنے والی بیوی کے بچھڑنے کی وجہ سے بہت اپ سیٹ تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی مرتی ہوئی بیوی کی آخری خواہش کے مطابق اپنے گھر کو ٹوٹنے نہیں دیا اور باپ اور ماں دونوں کا کردار انتہائی محبت سے ادا کیا-
 
مگر قسمت کی ستم ظریفی سے نا واقف الیگزنڈر معمولی نزلہ زکام میں مبتلا ہو کر جب ڈاکٹر کے پاس گئے تو ان کی طبیعت بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی ہی چلی گئی اور اس خاندان پر ایک بار پھر روح فرسا انکشاف ہوا کہ الیگزنڈر بھی کینسر میں مبتلا ہیں اور دیکھتے دیکھتے وہ بھی کینسر کے مرض کے باعث اپنے خاندان کو چھوڑ کر موت کے منہ میں چلے گئے-
 
image
 
اس وقت سمانتھا کے کاندھوں پر ساری ذمہ داری آن پڑی سمانتھا کا اس موقع پر یہ کہنا تھا کہ اس مشکل وقت میں اس کا سب سے بڑا سہارہ اس کی ماں کی تربیت تھی ۔ ان کی ماں نے اپنی بیماری کے باوجود اس پورے خاندان کو یک جان رکھنے کے لیے بہت محنت کی تھی-
 
ماں اور باپ کے بعد سمانتھا کو دونوں کی ذمہ داریاں سنبھالنی تھیں ایک راستہ تو یہ تھا کہ سمانتھا اپنی تعلیم کو روک دیتیں اور نوکری کر لیتیں مگر سمانتھا نے اپنے بہن بھائیوں کے لیے ایک مثال قائم کی اور انہوں نے اپنے تعلیمی سفر کو بھی نہ رکنے دیا اور اس کے ساتھ ساتھ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیۓ پارٹ ٹائم ویٹرس کی جاب بھی کر لی-
 
image
 
21 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے سمانتھا نے نہ صرف اپنی گریجوئشن مکمل کر لی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے بہن بھائيوں کے تعلیمی سفر کو بھی جاری رکھا- ان کا یہ کہنا تھا کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں ان کے پاس ایک پل بھی اپنے لیے نہ ہوتا- ان کی صبح کا آغاز صبح چھ بجے اپنے بہن بھائیوں کے ناشتے کی تیاری سے ہوتا جس میں ان کی دادی ان کی مدد کرتیں سب کو اسکول کے لیے تیار کر کے وہ خود اپنے کالج جاتیں اور اس کے بعد ان کی جاب کا وقت ہوتا-
 
وہ ان بچوں کے لیے ماں اور باپ دونوں کا کردار ادا کر رہی تھیں ان کی اس محنت کو دیکھتے ہوئے ٹویوٹا موٹرز کی جانب سے ان کے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے لیے پندرہ ہزار ڈالر کا اسکالر شپ بھی ملا اس کے ساتھ ساتھ ٹویوٹا موٹرز نے اس فیملی کو ایک نئی گاڑی بھی تحفے میں دی-
 
image
 
سمانتھا کی یہ جدوجہد ان تمام لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں خاندانی نظام اور باہمی اقدار ختم ہو چکی ہیں اور ان کے اندر ایک دوسرے کی باہمی محبت بالکل ختم ہو چکی ہے -
YOU MAY ALSO LIKE: