نظام کے قیدی

اس نے گاڑی روکی۔تیس سال سے زیادہ گزر چکے تھے مگر سڑک وہی پتلی سی اور کچی۔جیسی اسے بتائی گئی تھی۔ اس سڑک پر تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر پرانی طرز کا ٹیوب ویل اور اس سے ملحق کسی زمیندار کا ڈیرہ اسی حالت میں تھا جیسے اسے بتایا گیا تھا۔ وہ سوچنے لگاکہ کمال ہے اس علاقے میں تیس سال سے کچھ نہیں بدلا تھا۔اس نے ارد گرد کا جائزہ لیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔آدھا کلومیٹر مزید چلنے کے بعد اسے کھیتوں کے پیچھے وہ گاؤں نظر آ گیا جہاں اسے پہنچنا تھا۔ اس نے آگے پیچھے نظر دوڑائی۔ ایک جگہ سڑک پراسے ایک راستہ نظر آگیا جو گاؤں کو جاتا تھا۔ وہ گاڑی سے اترا اور گاؤں کی طرف چل پڑا۔اس کے دونوں محافظ اس کے پیچھے پیچھے تھے۔گاؤں پہنچے تو لوگوں نے بڑے عجیب انداز میں دیکھا کہ اجلے اجلے کپڑے پہنے تین آدمی چلے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے گاؤں میں چوہدری کے علاوہ کبھی کسی نے اتنے اجلے کپڑے پہنے ہی نہ تھے۔دو آدمی بھاگتے ہوئے آئے کہ جناب کدھر جا رہے ہیں، چوہدری صاحب کا ڈیرہ اس طرف ہے۔یہ دونوں چوہدری کے پالتو بدمعاش تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بات کرتے اس کے دونوں محافظوں نے آ گے بڑھ کر ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ تیزی سے وہاں سے بھاگ نکلے۔

گاؤں کی چھوٹی سی دکان پر وہ رکااور پوچھا، ’’فتح محمد کا گھر کہا ہے‘‘۔ دکاندار نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور پوچھا، ’’کونسا فتح محمد، یہاں تین چار لوگوں کے نام فتح محمد ہیں،آپ کو کس کی تلاش ہے‘‘۔ کچھ سوچ کر اس نے کہا،’’ کافی عمر کے ہونگے، بوڑھے آدمی۔ان کی بیگم کا نام مہتاب بی بی ہے‘‘۔ دکاندار نے سر ہلایا، ’’بابے پھتو سے آپ کو ملنا ہے ‘‘۔ اس نے ایک بچے کو ساتھ بھیج دیا کہ جاؤ بابے پھتو کے گھر چھوڑ آؤ۔ اس نے محافظوں کو واپس گاڑی میں بھیج دیا اور وہ دس پندرہ بچوں کے ہجوم میں ایک شکستہ سے کچے مکان تک پہنچ گیا۔ اس نے بچوں کو بھی واپس بھیج دیا مگر وہ تھوڑی دور جا کر دیکھنے لگے کہ وہ کیا کرتا ہے۔ اس کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے ہی ایک جون لڑکی کہیں سے بھاگی ہوئی آئی اور اس سے پوچھا ،’’ کس سے ملنا ہے‘‘۔ اس نے بڑی کوشش کی تو منہ سے بس ’’بابے ‘‘ کا لفظ ادا ہوا۔ لڑکی بلاتی ہوں کہہ کر اندر بھاگ گئی۔ اب اندر سے ایک آدمی نکلا اور کہنے لگا۔ بابو جی بابا آ رہا ہے ۔ بوڑھا ہے ، اٹھنے میں بھی دیر لگاتا اور چلتا بھی بہت آہستہ ہے۔ اس نے غور سے دیکھا، وہ شخص اس سے کوئی تین چار سال بڑا ہو گامگر شکل ہو بہو اس کی تصویر تھی۔ اگر دونوں اپنے کپڑے بدل لیں تو کوئی پہچان نہیں سکتا کہ کون کیا ہے۔اس آدمی کو بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا اس لئے دونوں ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ دروازہ کھلا اور بابے نے باہر آتے ہی پوچھا، ’’جی بابو جی ، کیا بات ہے‘‘۔ پھر اس نے پریشان ہو کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور پھر حیرت زدہ نظروں سے کبھی ایک اور کبھی دوسرے کو دیکھنے لگا۔ پھر وہ کھو سا گیا۔یوں لگتا تھا جیسے وہ سکتے میں ہے۔ تھوڑے وقفے سے اس نے لڑکھڑاتی زبان میں پوچھا، ’’بیٹا، کون ہو تم‘۔ ایک دم وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بڑی ہمت کر کے اس نے پوچھا، ’’بابا مجھے پہچانانہیں‘‘۔
وہ اپنے ما ں باپ کااکلوتا بیٹا تھا۔ ماں باپ نے بڑے لاڈ پیار سے اس کی پرورش کی تھی۔ اسے پڑھایا تھا اور اپنی تمام جائداد اپنی زندگی ہی میں اس کے نام کر دی تھی۔ اس نے مقابلے کا امتحان پاس کرنے کو بعد پولیس جائن کی تھی اور آج کل وہ اسی علاقے میں ایس پی کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ پچھلے سال اس کی ماں مر گئی تو وہ اپنے باپ کو آبائی گھرمیں اکیلا چھوڑنے کی بجائے اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا۔ ایک دن اس کے باپ نے اسے پاس بٹھایا اور کہا،’’ بیٹا تمہاری ماں چلی گئی ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت عادی تھے۔ مجھے نہیں لگتاکہ اس کے بغیر میں زیادہ عرصہ گزار پاؤں گا۔ یہ ہمارے آبائی گھر میں میرے کمرے میں موجود چھوٹی الماری کی چابی ہے۔ الماری تم میری موت کے بعد کھولو گے اس سے پہلے ہرگز نہیں۔ اس الماری میں میرے کچھ ضروری کاغذات ہیں ،وہ دیکھ لینا تمہارے کام آئیں گے۔ایک ڈائری بھی ہے۔ ا س میں میری طرف سے تمہارے لئے کچھ ہدایات ہیں، انہیں پڑھنے کے بعد ان پر عمل کرنا‘‘۔پچھلے ہفتے اس کا باپ بھی مر گیا۔ تجہیز و تکفین کے لئے میت آبائی گھر لے جائی گئی۔ دو تین دن ساری رسومات کی ادائیگی میں خرچ ہو گئے۔ فارغ ہوتے ہی اس نے اس الماری کو کھولا۔ کچھ شئیر سرٹیفیکیٹ۔ کچھ انعامی بانڈ اور کچھ زمینوں کے کاغذات جو پہلے ہی اس کے نام کر دی گئی تھیں۔
ان تمام چیزوں کے ساتھ وہ ڈائری بھی اسے مل گئی جس کو دیکھنے سے پہلے اسے اندازہ نہیں تھاکہ یہ ڈائری اس کی زندگی میں کیا ہلچل مچا دے گی۔یہ پچیس چھبیس سال پہلے کی ڈائری تھی۔ اس کے باپ نے لکھا تھا۔’’ میں سرکاری ڈیوٹی پر اس علاقے کا چکر لگا رہا تھا۔ چھوٹی سی سڑک پر جیپ رواں دواں تھی۔ ایک جگہ ایک چھوٹا سا دو ڈھائی سال کا بچہ ہر چیز سے بے نیاز سڑک کے بیچ میں کھڑا تھا۔میں ہارن دیتا تو وہ مسکرانے لگتا۔ مجھے وہ بچہ بہت بھلا لگا۔میں نے گاڑی بندکی اور اتر کر بچے کو پیار کرنے لگا۔ ایک مزدور دور سے بھاگتا ہوا آیا اور آتے ہی معافی مانگنے لگا کہ کہ اس کا بچہ اس کی غفلت کے باعث سڑک پر آ گیا اور مجھے گاڑی روکنی پڑی۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں ۔تمہارا بچہ بہت پیارا ہے۔ اسے پڑھاؤ اور بڑا آدمی بناؤ۔ وہ ایک دم گھبرا گیا۔صاحب میں نے بڑے بیٹے کوپڑھانا چاہا تھا۔ یہاں سے چار میل دور ایک سکول میں داخل بھی کروا دیا تھا۔ ہمارے چوہدری کو پتہ چلا تو اس نے مجھے بہت مارا کہ اس کی اجازت کے بغیر بچے کو سکول کیسے بھیجا۔ اس لئے میرے گاؤں کے اور میرے بچے چوہدری کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتے۔بیٹا اس وقت میری شادی کو کئی سال ہو چکے تھے مگر ہماری کوئی اولاد نہ تھی۔پتہ نہیں کیا سوچ کر میں نے اسے کہا کہ یہ بچہ مجھے دے دو۔میں اسے پڑھاکر بڑا آدمی بناؤں گا۔
اس شخص نے دائیں ، بائیں اور پیچھے دیکھا، کچھ سوچا اور کہنے لگا کہ چوہدری کو پتہ چلا کہ میں نے اپنا بیٹا کسی کو دے دیا ہے تو وہ میری کھال کھینچ لے گا۔ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا، آپ ذرہ چکر لگا کر آئیں ۔ میں اسے کھیت میں لے جاؤں گا ۔جب تک آپ واپس آئیں یہ بھاگ کر پھر سڑک پر آ جائے گا۔ آپ اسے اٹھا کر فوراً لے جائیں۔میں انجان بن جاؤں گا، کہوں گا بیٹا کھو گیا ہے۔ حوصلہ اورصبر بھی کر لوں گا۔ بس آ پ ایک وعدہ کریں ۔ آپ میرے بیٹے کو پڑھائیں گے اور جب یہ بڑا آدمی بن جائے تو اسے کہنا کہ بس ایک دفعہ مجھے مل جائے ۔ اسے بتانا کہ تمہارا باپ فتح محمد اور ماں مہتاب بی بی اس گاؤں میں مرنے سے پہلے تمہیں اک نظر دیکھنے کو زندہ ہیں۔ یہ آ کر مجھے مل جائے گا تومیں اطمینان سے مر سکوں گا۔ میں نے گاڑی موڑی اور کچھ دور جانے کے بعد واپس آیا، بچہ سڑک پر کھیل رہا تھا۔ میں نے ارد گرد نظر ڈالی دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ میں نے بچے کو گاڑی میں بٹھایا۔ارد گرد دیکھا، کوئی دیکھ نہیں رہا تھا۔ میں تیزی سے گاڑی لے کراس بچے کے ساتھ اپنے گھر آ گیا۔ وہ بچہ کوئی اور نہیں تم ہو۔ ہم میاں بیوی کے انتہائی لاڈلے اور پیارے ، ہمارے زندہ رہنے کا واحد بہانہ۔ یہ باتیں مجھے اندازہ ہے کہ تمہارے لئے تکلیف دہ ہونگی، میں شاید اس کا ذکر بھی نہ کرتا کیونکہ یہ ذکر میرے لئے بھی بہت تکلیف دہ ہے مگر مجھے ا س شخص سے کیا اپنا وعدہ وفا کرنا تھا۔ مجبوری تھی۔ امید ہے میرا بیٹا مجھے معاف کر دے گا۔

بابے پھتو نے پہلے بجھی بجھی آنکھوں سے اسے دیکھا۔ یکا یک اس کی آنکھوں میں ایک چمک جاگ گئی ۔ یوں لگا اسے بہت کچھ یاد آ گیا۔ مگر اس کے اجلے کپڑے دیکھ کر اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس نے دوبارہ کہا، ’’بابا مجھے پہچانو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس نے بابے کی طرف اپنے پھیلے بازو بڑھائے۔ بابا چیخ مار کر اس سے لپٹ گیا۔اور کہنے لگا ، اوئے دیکھو میرا بیٹا بڑا آدمی بن کر آیا ہے، سب دیکھو، میرا بیٹا اب بہت بڑا آدمی ہے۔ پھر زور زور سے بیوی کو آواز دی ، مہتاب جلدی آ، روز بیٹے کو یاد کرتی تھی، آ گیا ہے وہ۔ایک بوڑھی اندھی عورت لاٹھی ٹیکتی گھر سے تیزی سے ٹھوکر کھاتی اور سنبھلتی ۔ باہر نکلی اور بولی کون آیا ہے، اس کی آواز میں عجیب ارتعاش تھا۔ بابا روتے ہوئے اسے کہنے لگا، ’’ بھلی مانس میں تجھے کہتا تھا نہ رو، تیرا بیٹا کسی دن ضرور آئے گا، مگر تو نے صبر نہیں کیا، رو رو کر اندھی ہو گئی ہے، اب بیٹا آیا ہے تو دیکھ ، کیسے دیکھے گئی۔ وہ ماں سے لپٹ گیا۔وہ لڑکی جو باپ کو بلانے اندر گئی تھی اب کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ڈرتے ڈرتے اس نے پوچھا، تم میرے کھوئے ویر ہو۔ہاں میں وہی ہوں مگر اب واپس آ گیا ہوں۔ اس نے لڑکی کوجو اس کی بہن تھی، کھینچ کر اپنے ایک بازو میں سمیت لیا۔ اس کی ماں اس کے گلے لگی ہوئی تھی۔ بہن بازو سے لپٹی تھی ، باپ اور بھائی دوسرا بازو پکڑے کھڑے تھے۔ اسی حالت میں روتے ہوئے وہ سب گھر میں داخل ہوئے۔

چھوٹا سا صحن، چار یا پانچ فٹ چوڑا برآمدہ اور پیچھے ایک چھوٹا سا کمرہ جس میں سارا خاندان رہ رہا تھا۔ چھت میں بڑے بڑے سوراخ جن سے دھوپ بھی بڑی بے تکلفی سے اندر آ رہی تھی۔ بارش کے موسم میں تو کمرے میں بیٹھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ ایک ٹوٹی چارپائی، زمین پر بچھی ایک چادر سی، چند برتن، یہ اس خاندان کا کل سرمایہ تھا۔ ان کی یہ بری حالت دیکھ کر وہ خود ،جس نے بڑی مشکل سیخود کو سنبھالا تھا ایک با پھر رونے لگا۔ تھوڑی دیر جذباتی گفتگو کے بعد اس نے کہا کہ آج میں آپ لوگوں کو لینے آیا ہوں۔ سب اٹھو اور میرے ساتھ چلو۔ ساتھ چلنے کا سن کر اس کا بھائی کانپنے لگا۔ نہیں نہیں، ہم نہیں جا سکتے۔ باہر چوہدری کے لوگ پھر رہے ہیں ،انہیں ہمارے جانے کا پتہ چلا تو وہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ یہ گھر بھی چوہدری کا دیا ہوا ہے وہ چھین لے گا تو ہم کہاں رہیں گے۔ اس نے حوصلہ دیا کہ جب میں ساتھ ہوں تو یقین رکھو کوئی قریب بھی نہیں آئے گا۔چلنے کا سن کر اس کی بہن نے گھر کی چیزیں ساتھ لے جانے کے لئے اکھٹی کرنا شروع کر دیں۔ اس نے منع کیا تو وہ پریشان ہو کر پوچھنے لگی، بغیر بستر،سوئیں گے کیسے، برتن نہیں ہونگے تو کھائیں گے کیسے۔کپڑے نہیں ہونگے تو پہنیں گے کیا۔ اس نے جواب دیا کہ سارے سامان کو بھول جاؤ۔ میرے پاس ہر چیز ہے ، جو نہیں ہو گی وہ بھی مل جائے گی۔

وہ اس ٹوٹے پھوٹے گھر سے روانہ ہوئے تو سہمے سہمے اس سے چمٹ کر چل رہے تھے ۔انہیں ڈر تھا کہ حسب روایت چوہدری کے آدمی ڈنڈے اور بندوقیں لے کر آئیں گے اور انہیں اٹھا کر لے جائیں گے۔ چوہدری کے آدمی دور کھڑے دیکھ رہے تھے۔ اس کا بھائی اور سہم گیا اور اس نے بہن کو اپنے اور باپ کے حصار میں رکھ کر چلنا شروع کر دیا۔چلتے چلتے وہ سڑک پر پہنچ گئے مگر چوہدری کے بندے نہیں آئے۔ سڑک پر دو جیپیں کھڑی تھیں ۔ جن میں کچھ سفید کپڑوں میں اور کچھ وردی میں پولیس کے اہلکار موجود تھے۔ انہیں دیکھ کر اس کے بھائی اور باپ کو حوصلہ ہوا۔ ایک جیپ میں اس کا باپ اس کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھا اور باقی لوگ پیچھے ۔ دوسری جیپ میں جو پیچھے پیچھے چل رہی تھی انہوں نیپولیس کے مسلح لوگ بیٹھے دیکھے تو یقین آیا کہ وہ گاؤں سے بخیریت باہر نکل آئے ہیں،گاؤں کے چوہدری کی دسترس سے بہت دور۔ ایک نئی دنیا کی طرف جس کی جھلک بھی انہوں نے اب تک نہیں دیکھی تھی۔ایک نظام کے قیدی اب رہا ہو چکے تھے۔

آج کل اس کے گھر میں ایک بار پھر بھر پور رونق تھی۔ نئے آنے والے ہر چیز کو حیران نظروں سے دیکھتے اور خوش ہوتے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ اب ان کی دنیا واقعی بدل چکی ہے۔نئے گھر میں ہر ایک کا اپنا اپنا وسیع کمرہ ۔آسائش کی ہر چیز، کھانے پینے کی وافر چیزیں۔ گا ؤں کی قدروں سے بہت مختلف ۔کچھ لوگ آ کر انہیں شہر کے طور طریقے سکھا رہے تھے۔ کچھ پڑھنا سکھا رہے تھے، کچھ ان کے حلئے سنوار رہے تھے۔ زندگی ایک نئی ڈگر پر گامزن تھی۔ ایسی ڈگر جس پر خوف اور ڈر کا کوئی سایہ نہیں تھا بلکہ آزادی ہی آزادی تھی۔ وہ خود بھی بہت خوش تھا۔کسی نے بہت سچ کہا ہے کہ گھر انسانوں سے بنتے ہیں۔ آج اس کے گھر میں اس کے ساتھ چار مزید جیتے جاگتے انسان اس کے اپنے ماں باپ، اور بہن بھائی موجود تھے ۔ ایک مکمل خاندان۔پہلے ماں اور باپ کے فوت ہونے کے بعد وہ کس قدر اکیلا تھا مگر ان چاروں کی آمد نے اس کی زندگی میں رنگ بھر دیا تھا۔ایک بچے کی تعلیم نے ایک بڑی معاشرتی تبدیلی ممکن بنائی تھی۔وہ سوچ رہا تھا کہ اسے ایک بار پھر اس گاؤں جانا ہے۔سارے گاؤں کے غریبوں اور اس نظام کے قیدیوں کو چوہدری کے ظلم اور جبر سے ہمیشہ ہمیشہ کی نجات دلانے کے لئے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500414 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More