"کب سے یہ حالت ہے آپکے بچے کی "
" کوئی تین چار ہفتے ہو گئے ہیں
شہر کے تمام ڈاکٹر دیکھ ڈالے مگر ۔۔۔۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
میں تو پہلے ہی دن اسے آپکی پاس آانا چاہتی تھی مگر یہ آج کی نسل کچھ مانے
تب ناں ۔۔۔
ہمیں دقیانوسی سمجھتے ہیں
جیسے ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید کیے ہوں "
" بس عجیب زمانہ آ گیا
ہر پرانی چیز کو شک کی نظر سے دیکھنے لگی ہے آج کی نسل
روحانیت پر تو ان کا ایمان ہی نہیں رہا
یہ ایمان کی کمزوری ہے
عقیدہ کمزور ہو گیا ہے
اعتقاد باقی نہیں رہا "
پیر صاحب تاسف میں سر ہلاتے ہوئے خاصے آزردہ دکھائی دیے
اسی دوران ایک ملازم نے ان کے کان میں جانے کیا پھونک ماری کہ فوراً اٹھے
اور زنان خانے کی طرف بڑھ گئے
کوئی بیس پچیس منٹ بعد وہی آدمی دوبارہ نمودار ہوا اور آ کر اعلان کیا
" پیر صاحب کے بیٹے کو اچانک تپ چڑھ گیا ہے
وہ ڈاکٹر صاحب کے پاس دوائی لینے چلے گئے ہیں
لہٰذا آج کسی کو کوئی تعویز نہیں ملے گا
آپ سب لوگ کل تشریف لائیں "
بیٹے نے معنی خیز انداز میں ماں کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں چرا گئی |