” ارے بھائی! اس میں ذرا بوٹی تو ڈال دینا “۔۔۔ میت کے گھر پر کھانا اور کئی لوگوں کی عادات!

image
 
”ارے بھائی! سنو، اس میں ایک بھی بوٹی نہیں ہے ، ذرا کوئی اچھی سی دو چار بوٹیاں تو اس میں ڈال دو ۔ بوٹی کے بغیر بریانی کھانے کا مزہ ہی کب آتا ہے ۔“
 
ایسے جملے کسی ریسٹورنٹ میں نہیں ، بلکہ اکثر میت کے گھر میں سننے کو ملتے ہیں ۔ جب لوگ میت کی تدفین کے بعد واپس آتے ہیں اور میت والے گھر میں کھانا شروع ہوتا ہے ، تو ایسے لگنے لگتا ہے کہ جیسے کبھی کسی نے کھانا کھایا ہی نہ ہو ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسے وقت میں بالکل بھوکے افلاس کے مارے بن جاتے ہیں اور بریانی میں بوٹیاں نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے لوگوں سے مزید بوٹیاں ڈالنے کی فرمائش کرتے ہیں ۔
 
یہ صرف مردوں میں نہیں بلکہ خواتین میں بھی دیکھا گیا ہے ۔ اکثر خواتین بھی میت کے گھر میں کھلائے جانے والے کھانے پر فرمائشیں کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔
 
“بھائی! اس میں آلو ہی نہیں ڈالا۔۔۔ بھائی! یہ تو گرم ہی نہیں ہے ، اس میں گرم کھانا ڈال دو ۔۔۔ سادہ چپاتی نہیں، تافتان یا تل والے روغنی نان دے دو وغیرہ ۔“ ایسے مناظر یہ بہت سے گھرانوں میں تدفین کے بعد کھلائے جانے والے کھانے کے وقت دیکھنے اور سننے کوملتے ہیں ۔ ہماری ویب کے قارئین میں سے اکثر لوگ بھی اس طرح کے جملے سن چکے ہوں گے اور سامنے والا شخص ان باتوں کو سننے کے بعد سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کرپاتا ۔
 
image
 
افسوس اس بات کا ہے کہ بطور انسان ہم بہت بے حس ہوچکے ہیں ۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس وقت میت کے گھر والوں پر کیا بیت رہی ہوتی ہوگی ، لیکن اس گھر میں جمع ہونے والے افراد کو بس اچھا کھانا کھانے کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔ انہیں کم بوٹیاں، نان اور آلو تو دکھائی دیتے ہیں ، لیکن دنیا سے گزرجانے کے بعد اس گھر کے لوگوں پر بیت جانے والی قیامت صغریٰ نہیں دکھائی دیتی ۔ وہ بجائے ایسے وقت میں گھر والوں کو کھانا کھلانے اور ان سے تعزیت کرنے کے ، اپنا پیٹ بھرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں ۔ سمجھ یہ نہیں آتا کہ میت کے گھر میں کھانے کے لقمے لوگوں کے حلق سے کیسے آسانی سے اُتر جاتے ہیں ۔
 
ایسے وقت میں سوچا کریں کہ خدانخواستہ اگر یہی لمحات ان کے گھر میں آئیں اور دوسرے لوگ اسی طرح ان کے ساتھ بھی ایسا کریں تو انہیں کیسا لگے گا ؟ یقینا ایک طرف زندگی سے کسی اہم شخص کے چلے جانے کا دکھ آپ کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا ہوگا اور دوسری طرف میت کے گھر میں تعزیت کرنے والوں کی ایسی عادات و اطوار انہیں دکھ دیتی ہوں گی ۔ رشتہ داروں کا کام یہ ہوتا ہے کہ گھر والوں کو تسلی دیں ، اس دکھ سے انہیں نکالنے میں ان کی مدد کریں ۔ گھر والوں کو کھانا کھلائیں، ان کے آرام کا سوچیں کہ یہ لوگ اتنے دکھ میں ہیں تو ان کی دل جوئی کرنا کتنا ضروری ہے ۔
 
میت کے گھر میں جاکر ان پر بوجھ بننے کے بجائے کسی کی دل جوئی کرنے کا سبب بنیں ۔ کوشش کریں کہ ایسے وقت میں تجہیز و تکفین کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیں، قبر ستان کے معاملا ت کو دیکھ لیں۔ ا پنی جیب سے اگر ان کا خرچہ اٹھاسکتے ہیں تو گھر والوں کی خاموشی سے ایسے معاملات میں مدد کرنے کی کوشش کریں۔ اگر مالی مدد نہیں کرسکتے تو گھر والوں کا دکھ بانٹیں، ان کے پیاروں کے ایصال ثواب کیلئے خود کچھ نا کچھ ضرور پڑھیں، فضول باتوں میں مصروف نہ رہیں۔ ایسے وقت میں کھانے پر غور کرنے کے بجائے ایصال ثواب کرنے پر زیادہ توجہ دیں ۔ اپنے اندر کی انسانیت کو زندہ رکھیں اور دوسرو ں کی اصلاح بھی کرنے کی کوشش کریں۔
 
image
 
ہماری ویب کی کوشش ہے کہ وہ معاشرے کے سماجی مسائل پر بھی بات کرے تاکہ لوگوں کی اصلاح کا کام جاری رہ سکے، امید ہے کہ اس مضمون سے لوگوں کی اصلاح ضرور ہوگی اور انہیں سوچنے کیلئے نئے مثبت زاوئیے ملیں گے۔
YOU MAY ALSO LIKE: