1947میں برصغیر آزاد ہوا، انگریز ملک دو حکومتوں کے حوالے
کر کے خود واپس چلا گیا۔تقسیم ہند کی دستاویز کے مطابق یہاں موجود آزاد
ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ جس ملک کے ساتھ چاہیں شامل ہو
جائیں۔ریاستوں نے زیادہ تر یہ فیصلہ مذہبی اکثریت کی بنیاد پر
کیا،جغرافیائی محل وقوع بھی مد نظر رہا اور ان دونوں نکات کے مطابق کشمیر
پاکستان کا ایک یقینی حصہ تھا لیکن چونکہ کشمیر کا راجہ ہندو تھا اور نہرو
کشمیری اس لیے دونوں کی ذاتی خواہشات کے مطابق انہوں نے کشمیر کو بھارت میں
ضم کرنے کا اعلان کیا حالانکہ ریاست کی 77فیصد آبادی مسلمان تھی اور
جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ پاکستان سے جڑی ہوئی ریاست تھی لہٰذا اس کا الحاق
یقینی طور پر پاکستان سے ہونا چاہیئے تھا لیکن ایسا نہ ہوا اور نہرو اور
راجہ کی خواہش پر وہ تاریخی جُرم کیا گیا جو سات دہائیوں کے بعد بھی جاری
ہے۔ 22اکتوبر 1947کوقبائلی پشتون اور رضا کار کشمیری کشمیر کو آزاد کرانے
اس میں داخل ہوئے اور اس کا ایک حصہ آزاد کرا لیا جو آج آزادجموں و کشمیرکے
نام سے پاکستان کا حصہ ہے۔بھارت نے جب دیکھا کہ ایک نوزائیدہ اور بے سرو
سامان نیا ملک کچھ کرنے کی ہمت اور جرات رکھتا ہے تو اس نے اقوام متحدہ کا
درواز کھٹکھٹایا۔اقوام متحدہ نے اپنی قراردار نمبر47 میں یہ قرار دیا کہ
کشمیر میں استصوابِ رائے کرایا جائے اور کشمیری جس ملک کے حق میں ووٹ ڈالیں
اسی کے ساتھ شامل کر دیا جائے جسے دونوں ملکوں نے تسلیم کیا لیکن مسئلہ آج
تک لا ینحل ہے اور اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے باوجود اور انہیں تسلیم
کرنے کے باوجود بھی بھارت استصوابِ رائے کے لیے راضی نہیں۔26اکتوبر1947کو
راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پردستخط کرکے جو جرم کیا تھا اسی
کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے مابین تین کھلی جنگیں ہو چکی ہیں اور
مستقبل میں بھی اس کا خطرہ اس وقت تک موجود ہے جب تک اس مسئلے کا مستقل حل
نہیں نکل آتا اور استصوابِ رائے نہیں کرالیا جاتا جس کے لیے بھارت راضی
نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر کشمیریوں کی غیر جانبدارانہ رائے لی گئی تو
فیصلہ اُس کے خلاف اور پاکستان کے حق میں ہوگا۔ اُس نے کشمیر کا ایک ہی حل
ڈھونڈا ہوا ہے کہ اُس نے اپنی جو فوجیں 27اکتوبر 1947کو کشمیر میں داخل کی
تھیں اُن کی تعداد بڑھاتا جائے اور کشمیریوں کو مزید اور مزید دباتا جائے
لیکن وہ قدرت کا یہ قانون بھول جاتا ہے کہ کسی چیز کو جتنا دبایا جائے وہ
ردعمل کے طور پر اتنا ہی زور مخالف سمت میں لگائے گی اور یہی کچھ کشمیر میں
ہورہا ہے۔ کشمیر میں جدوجہد آزادی تو کبھی ختم نہ ہوئی تھی لیکن 1989سے اس
جدوجہد نے جو زور پکڑا وہ آج بھی اُسی زور وشور سے جاری ہے اور کشمیری
جانوں کی پرواہ کیے بغیر اپنا یہ پیدائشی حق حاصل کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف
ہیں۔ اس کے بچے جوان، بوڑھے، مرد اور عورت سب اس جدوجہد میں شامل ہیں اور
ان کی زندگی کا یہی مقصد ہے کہ غلامی کی جو تاریک رات وہ دیکھ رہے ہیں ان
کی آنے والی نسلیں اس قید سے آزاد ہوں۔ بھارت کا 5 اگست 2019کا اقدام بھی
ان کی ثابت قدمی میں کوئی لغزش نہیں لاسکا ہے بلکہ وہ زیادہ مستقل مزاجی سے
اپنے مشن کے حصول کے لیے مصروف عمل ہوگئے ہیں اگرچہ ان کے گھروں کو قید
خانوں میں تبدیل کیا گیا اور پوری ریاست کو ایک بڑی جیل بنا دیا گیا شاید
انسانی تاریخ کا طویل ترین کر فیو لگایا گیا مکمل میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا
انٹرنیٹ سروس بند کرد ی گئی لیکن وہ کشمیریوں کے ارادوں کو متزلزل نہیں کر
سکا اور آج بھی وہ اسی زوروشور سے اپنی تحریک میں مصروف ہیں۔ وہ ہزاروں
جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں لیکن اُن کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔
جنوری 1989سے لے کر اب تک ایک اندازے کے مطابق ساڑھے پچانوے ہزار سے زائد
کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ 22920 خواتین بھارتی افواج کے ہاتھوں بیوگی کی
زندگی گزار رہی ہیں 107802بچے یتیم ہوچکے ہیں یہ تعداد اس سے زائد ہو سکتی
ہے کم نہیں۔ ہزاروں کشمیری عورتوں کی بے حرمتی کی جا چکی ہے کیونکہ بھارتی
فوج اسے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے لہٰذا اس طویل جنگ
میں یہ ہتھیار لا تعدادبار استعمال کیا جا چکا ہے۔ یہاں انسانی حقوقی کی جس
بیدردی سے خلاف ورزی کی جا رہی ہے اُس کا ایک گھناؤ نا ثبوت وہ اندھی
آنکھیں ہیں جو پیلٹ گنوں کی نظر ہو چکی ہیں اب تک 340نوجوان اپنی ایک یا
دونوں آنکھیں کھوچکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔
ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں جن کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں
یا نہیں۔ کشمیر میں گمنام اجتماعی قبروں کا ملنا کوئی انہونی بات نہیں۔
بھارت یہ سب کچھ کر رہا ہے لیکن دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے۔
یہ تمام مظالم کرنے کے بعد بھی دنیا اُسے د ہشت گرد قرار نہیں دے رہی بلکہ
وہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے اس نے جدوجہد آزادی
کرنے والے بوڑھے کو چھوڑا ہے نہ جوان کو بلکہ اُس کی پیلٹ گنوں کے نشانے پر
آنے والے بچوں کے جسموں کو بھی دنیا نے چھروں کے نشانوں سے چھلنی چھلنی
دیکھا ہے۔ اس نے آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے رہنماؤں کو تو پہلے پابند
سلاسل کیا ہوا تھا لیکن 5اگست2019 کے اقدام کے بعد تو اس نے ہر کشمیر ی
رہنما کو قید وبند میں ڈالا اور اس کے اسی رویے نے محبوبہ مفتی جیسے بھارت
نوازوں کو بھی یقین دلا دیا کہ بھارت کو کشمیر سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ وہ
صرف ہوس ملک گیری کے تحت اُسے دبائے رکھنا چاہتا ہے اپنی سال بھر سے زیادہ
قید کے بعد رہا ہونے پر محبوبہ مفتی نے اپنی پریس کا نفرنس میں بھارت کا
جھنڈا لہرانے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ بھارت نے ہم سے ہمارا قومی پرچم
یعنی کشمیر کا پرچم چھین لیا ہے۔ کیونکہ 5 اگست2019 کے بعداب مقبوضہ کشمیر
کا نہ اپنا پرچم ہے نہ آزاد قانون ساز اسمبلی۔ بھارت کشمیر میں کھل کر دہشت
گردی کر رہا ہے اور اب دنیا کو اس کے خلاف کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا ہوگا
ورنہ یہ بہت بڑی جیل یعنی کشمیر خود کشمیریوں کی ہی قتل گاہ بنتا رہے گا۔
پاکستانی اور کشمیری دنیا بھر میں 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے
ہیں لیکن ایسا آخر کب تک ہو گا اب اس مسئلے کا حل نکلنا چاہیئے۔اقوام متحدہ
کو بھی اپنے ریکارڈ پر موجود اس سب سے پرانے مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ
کوشش کر نی چاہیئے اور بڑی طاقتوں کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیئے
ورنہ برصغیر ہر وقت جنگ کے خطرے سے دو چار رہے گا اور یہ بھی یاد رہے کہ
دونوں ممالک ایٹمی قوتیں ہیں لہٰذا کسی بڑے نقصان کے خدشے کو بھی نظر انداز
نہیں کیا جاسکتا۔
|