حکمت آمیز باتیں:اڑتیسواں حصہ
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
آپ کر سکتے ہو، آپ کر لو گے؟ آپ کسی بھی مایوس شخص سے یہ کہہ دیں، پھر ان الفاظ کی جادوگری آنے والے وقت میں ملاحظہ کریں، حوصلہ دینا شروع کریں، کامیابی ملتی جائے گی۔
اصلاح کوئی کوئی کرتا ہے، جو کرتا ہے وہی آپ کا سب سے مخلص دوست ہوتا ہے۔
سیکھنے کے لئے پہل کرنی پڑتی ہے، لاعلمی کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔
کامیابی اپنے ساتھ دوسروں کو بھی دلوائی جائے تو خوشی لازوال ہو جاتی ہے۔
انسان جب یہ سوچتا ہے کہ غلطی نہ ہو، تب غلطیاں ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
کسی کو مشکل لمحات سے نکال کر پرسکون لمحات تک لانا اوراُس کی خوشی سے لطف واندوز ہونا بڑے دل گردے کا کام ہے۔
انسان کبھی بھی کسی بھی لمحے آزمائش میں آسکتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنا حوصلہ ہار جائیں،مشکل سے لڑکرکامیاب ہونا ہی بڑے لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔
بچے ہوں یا بڑے اگر اُن کو سراہے جانے کی کوشش ہوتی رہے تو اُن کی مخفی صلاحتیں اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔اس حوالے سے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں بہتری آ سکے کہ قدر شناسی کی جائے تو پھر مزید لوگ بہترکام کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
اچھے کاموں کو مخلوق خدا کی بھلائی کے لئے یوں کریں کہ لوگوں کو یہ یقین ہو جائے کہ سب ایک جیسے نہیں ہیں، دکھاوا سے گریز ضروری ہے، شہرت دائمی نہیں رہتی ہے مگر نیکی سدا برقرار رہنے والی ہوتی ہے۔÷
تلخ حقیقت کوئی تسلیم کرے نہ کرے مگر کم سے کم آپ کی ذات پر سکون رہتی ہے کہ آپ نےدرست فیصلہ کیا ہے کچھ کہنے یا کرنے کا لیکن آپ بے چین ہیں تو پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلیں۔
ناکامی، مسترد کیا جانا، انکار یہ وہ عناصر ہیں جو آپ کو بنا بھی سکتے ہیں اورتباہ بھی کر سکتے ہیں اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟
ہم لوگوں کی کامیابی کے پیچھے چھپی مسلسل جہدوجہد کو یاد رکھیں تو پھر ہم میں سے کوئی بھی جیت سے کم پر راضی نہ ہو۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی راتوں رات شہرت حاصل کر لیتا ہے مگریہ سب بھول جاتے ہیں کہ کسی کو کامیابی تب ہی ملتی ہے جب وہ کٹھن دور کاٹ لیتا ہے، جب تک مسلسل محنت کے ساتھ جہدوجہد جاری نہ رہے تب تک منزل نہیں ملتی، مگر اپنا مقام قائم رکھنے کے لئے محنت ہر دن ضروری ہے۔
ماں جیسی عظیم نعمت کی ہمیشہ قدر کرنی چاہئے۔
مقابلے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ سب کو برابری کی شرائط پر جیتنے کا موقع دو، جہاں کسی کے ساتھ حق تلقی ہو رہی ہو،وہاں وہ مقابلہ کم یکطرفہ جانبداری زیادہ ہوتی ہے۔
خود اعتمادی کے لئے خود پر یقین کرنا اہم ہوتا ہے جب آپ خود ہی اپنے آپ پر بھروسہ کرنا شروع نہیں کرو گے تو کوئی دوسرا بہت کم ہی آپ کو با اعتماد کر سکتا ہے
آپ اپنی ذات پر توجہ دیں، اپنی کمزوریوں اور خوبیوں سے واقف ہوں اور آپ اپنی کوئی انفرادیت پیدا کریں تو اکثر لوگ آپ پر توجہ دینا شروع ہو جاتے ہی، جہاں کچھ منفرد ہو لوگ متوجہ ہوتے ہیں یہ کلیہ اہم ہے۔
ہم انسان بھی کتنے عجیب ہیں کہ اللہ تعالی کے قرب کے حصول کی کوشش کرتے ہیں مگر جب ہم پر کسی بھی طرح کی آزمائش آتی ہےتو ہم چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے؟
شعور بیداری کے لئے لکھنا چاہیے مگر ایسا لکھنا بدترین ہے جس سے آپ کسی کے ذہن کو خرابی کی طرف مائل کر دیں۔
دیکھیں! جب انسان کے سر پر بہت کچھ سوار ہو جاتا ہےتو وہ ماضی کے جیسے اپنی کارکردگی کو نہیں دہرا سکتا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں خاص کر ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم کچھ باتوں کو سر پر اتنا سوار کر لیتے ہیں کہ وہ بار بار تنگ کرتی ہیں اور یہی وجہ ہمیں ذہنی طور پر منتشر رکھتی ہے جس کی وجہ سے ہم یکسوئی کے ساتھ نہ تو کوئی کام نہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی پرسکون رہ سکتے ہیں، لہذا خود کو توازن کے ساتھ جینے کی طرف مائل کریں تاکہ مسائل کا شکار نہ رہیں۔
آج کے دور میں بہت کم ہی لوگ یہ احساس کرتے ہیں کہ آپ کے لئے کوئی اچھا کر رہا ہے یا کچھ سوچ رہا ہے۔
جن کو ہم دل میں بسا لیں، جن کو اپنا سمجھ لیں تو پھر اُن کو عزت دی جاتی ہے، اُن کی ذات کو غیروں میں اچھالا نہیں جاتا ہے۔
ہم اپنی من مانی کرنے کے بعد بھی افسوس کرتے ہیں، جب ہماری مرضی نہ چل پائے تو بھی افسوس کرتے ہیں، انسان واقعی کسی حال میں خود کوخوش نہیں رکھ پاتا ہے اورشکایتں ہزاررکھتا ہے۔
تجربات سے ثابت ہو رہا ہے کہ آپ کے خلاف کتنے ہی لوگ کھڑے ہو جائیں، آپ حق پر ہیں تو آپ کے لئے بند راستے بھی کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
قربانی جب تک نہیں دی جاتی ہے تب تک بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے۔
اگر کوئی بُرا کام کر رہا ہے تو اُسے یوں سمجھائیں کہ وہ سدھر جائے، بہتر ہوگاکہ خود ایسی مثال بنیں کہ وہ آپ کو دیکھ کر خود ہی سدھرنے پر مائل ہو جائے۔
انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے، گناہ سرزد ہو سکتا ہے مگرسمجھداری یہ ہوگی کہ آپ اپنی اصلاح یوں کریں کہ اللہ آپ سے راضی ہو جائے۔
ہم سالوں تک اپنے آپ کو مسائل کے انبار میں پھنسا کر رکھتے ہیں مگر جب وہ اذیت ہماری زندگی خراب کرنے لگتی ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ سب کچھ منٹوں میں ٹھیک ہو جائے۔
ہمارے پاس جو ہو ہم اُ س سے لاپروا ہو کر اُس شے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں جو ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ہوتی ہے، ہم مصنوعی زندگی کی طرف مگن ہیں جبکہ فطری مناظر سے لطف اندوز ہونا ہمیں بے حد سکون عطا کر سکتا ہے۔
ہر نیا دن یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ ابھی آپ سے مایوس نہیں ہوا ہے، آپ کو زندگی کا نیا دن کچھ الگ سے کرنے کے لئے مل رہا ہےتو اس آج کے دن سے فائدہ اُٹھانا سیکھ لیں گے تو بہت کچھ حاصل ہو جائے گا۔
سورج ہمیشہ ڈوب کر طلو ع ہوتا ہے ہم اس سے سبق کیوں نہیں سیکھتے ہیں کہ ہر ناکامی کے بعد کامیابی ضرورہوتی ہے۔
کامیابی مسلسل محنت اور ناکامی سستی کی بدولت مقدر بنتی ہیں۔ کامیابی کے لئے چلتے رہنا ضروری ہوتا ہے۔
سوچ کے دھارے کو بدلنے کے لئے اپنی قوت ارادی کو استعمال میں لانا بے حد ضروری ہے ورنہ جب تک خود میں کچھ نہیں بدلیں گے کچھ نہیں بدلے گا۔
جو سیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔
تنقید کرنا بہت آسان ہے مگر اپنے اندر چھپی خامیوں کو دور کرنا بہت مشکل ہے تب ہی ہم دوسروں کو الزام دے کر اپنی ذات پر بات کرنے کا موقع نہیں دیتے ہیں۔
وطن سے محبت کرنے والے کبھی دشمنوں کا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔
ملک کی سلامتی پر معمور ادارے ایک ایسا مورچہ ہیں جہاں سے دشمنوں کے ہر وار کو ناکام بنانے کی جہدوجہد ہوتی ہے اگرآپ ازخود ان کو مسمار کر دیں گے تو پھر دشمنوں نے آپ کو گھیرکرتباہ وبرباد کر دینا ہے، لہذا دشمنوں کے آلہ کار مت بنیں نہ ہی اُن کے ہاتھوں میں کھیلیں۔ ۔
مسائل میں گھر جانا اتنا اہم نہیں ہے جتنا ہمارا مسئلے میں پھنس جانے کے بعد نکالنے کی تگ و دو نہ کرنا ہے۔
ہر نیا دن یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ ابھی آپ سے مایوس نہیں ہوا ہے، آپ کو زندگی کا نیا دن کچھ الگ سے کرنے کے لئے مل رہا ہےتو اس آج کے دن سے فائدہ اُٹھانا سیکھ لیں گے تو بہت کچھ حاصل ہو جائے گا۔
عذاب بھری زندگی اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ جی رہے ہیں تو پھر اُس سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کریں، اگر ایسا نہیں ہے تو کچھ ایسا کریں کہ زندگی حسین و پرسکون ہو جائے۔
آج کل دلوں کو جیت لینے کا فن بھی جادوگری میں شمار ہوتا ہے۔
جتنا زیادہ آپ اپنے آپ کو سوچوں میں مگن رکھیں گے اُتنا ہی آپ کے لئے کچھ کرنا مشکل ترین ہو جائے گا، لہذا کم سوچ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی طرف بڑھنا آپ کو کامیابی دلوا سکتا ہے۔
|