|
|
مغربی معاشرت میں خاندانی نظام اتنا مضبوط نہیں ہوتا
جہاں کے والدین اپنے بچوں کے لیے اس طرح کی قربانیاں دیں جیسا کہ مشرقی
لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے- عام طور پر شدید بیماریوں کے حامل بچوں کے والدین
ان کی پرورش کا بار اٹھانے کے بجائے انہیں میڈیکل سینٹرز کے حوالے کر کے
بری الزمہ ہو جاتے ہیں جہاں وہ بچے پل پل موت کے منہ میں جاتے ہیں اور
بیماری کے ساتھ ساتھ شدید تنہائی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں- ایسے بچوں کے
دکھ اور تکلیف کو محسوس کرنے والے لیبیائی نژاد امریکی الیکٹرونک انجنئیر
محمد بزیک بھی ہیں- |
|
محمد بزیک جنہوں نے چالیس سال قبل امریکہ میں سکونت
اختیار کی تھی ایک عام سے نوجوان تھے انہوں نے امریکہ میں ہی شادی کی جن سے
اللہ نے انہیں ایک بیٹے سے نوازہ جو پیدائشی طور پر مفلوج تھا- بیوی کی موت
کے بعد بیٹے کی تمام تر ذمہ داری سنبھالتے ہوئے ان کو ان بچوں کا خیال آیا
جن کو ان کے والدین تنہا چھوڑ جاتے تھے انہوں نے ان بچوں کو گود لینے کا
فیصلہ کر لیا- |
|
ان کے بارے میں لاس اینجلس ٹائمز میں چھپنے والی کہانی
سے لوگوں کو ان کے بارے میں پتہ چلا جس میں انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا
کہ اب تک دس بچے ان کی گود میں دم توڑ چکے ہیں- محمد بزیک کی ان خدمات کے
اعتراف کے طور پر ان کو دیانیٹ فاونڈیشن کی جانب سے بین الاقوامی ایوارڈ سے
بھی نوازہ جا چکا ہے اس کے علاوہ محمد بزیک کی زندگی پر ڈاکیومینٹری فلم
بھی بنائي جا چکی ہے- |
|
|
|
محمد بزیک اور ان کی لے
پالک بیٹی |
عام طور پر امریکہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نائن الیون
کے واقعات کے سبب مسلمانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور ان کی نظر میں
مسلمان ایک دہشت گرد قوم ہے- مگر اس حوالے سے صوفی کیفر جو کہ لاس اینجلس
میں ایسے بے یارو مددگار اور بیمار بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے سے
منسلک ہیں ان کا محمد بزیک کے بارے میں یہ کہنا تھا محمد بزیک ایک لمبی
داڑھی اور نرم مسکراہٹ والا مسلمان ہے میرے سامنے وہ اپنی لے پالک ایسی بچی
کو سنبھال رہے تھے وہ بچی ایک ایسے دماغی مرض میں مبتلا تھی جس کے سبب نہ
تو وہ دیکھ سکتی تھی نہ سن سکتی تھی اور نہ ہی بول سکتی تھی وہ صرف لمس کو
محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی- اس کے ساتھ ساتھ اس کو شدید دورے بھی پڑتے
تھے اس بچـی کو اس کے والدین پیدائش کے فوراً بعد بغیر کوئی نام دیے ہسپتال
میں مرنے کے لیے چھوڑ گئے تھے- |
|
محمد بزیک نے اس بچی کو سات ہفتوں کی عمر میں جب گود لیا
تو اس کو بتایا گیا کہ یہ بچی صرف چند ماہ ہی زندہ رہ سکے گی مگر محمد بزیک
کی توجہ اور محبت کے سبب بچی چھ سال کی ہو چکی ہے- |
|
محمد بزیک مسلمانوں کی
مدر ٹریسا |
محمد بزیک نے گزشتہ تین سالوں سے اپنے کام کے لیے اپنے
ساتھ ایک نرس کو بھی رکھ لیا ہے جو کہ ان کے ساتھ ایسے بچوں کو سنبھالنے
میں نہ صرف مدد کرتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے ہی محمد بزیک کو اتنا وقت مل
سکتا ہے کہ وہ نماز کی ادائگی کر سکیں یا پھر تھوڑا آرام کر سکیں- ان کی
کہانی سامنے آنے کے بعد ہر جانب سے ان کو بہت سراہا جا رہا ہے یہاں تک کہ
کچھ میڈیا کے نمائندوں نے انہیں مسلمانوں کی مدر ٹریسا کا نام بھی دے ڈالا
ہے- |
|
محمد بزیک اور ان کی
بیماری |
محمد بزیک 62 سال کے ہو چکے ہیں اور اس وقت خود بھی
آنتوں کے کینسر میں مبتلا ہیں- ان کا یہ کہنا ہے کہ میرا کوئی خاندان نہیں
ہے اور نہ ہی میرا خیال رکھنے والا ہے- اس کے ساتھ یہ بیماری مجھے خوفزدہ
کر دیتی ہے اس وقت میں میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ جب 62 سال کی عمر میں
تنہائی مجھے اتنا خوفزدہ کر سکتی ہے تو ان بچوں کے احساسات کیا ہوں گے یہی
خیال مجھے حوصلہ دیتا ہے اور میں زیادہ سے زيادہ ان بچوں کا خیال رکھنے کی
کوشش کرتا ہوں- |