سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)
(سودی نظام معیشت کی تباہ کاریاں آشکار کرتی ایک تحریر) |
|
راجہ محمد عتیق افسر اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور 03005930098, [email protected]
اگر ہم اپنی جیبوں کوٹٹول کر دیکھیں تو ہر کرنسی نوٹ پر ایک عبارت لکھی ہوئی پائیں گے ۔عبارت کے الفاظ (بینک دولت پاکستان ۔۔۔۔۔۔ روپیہ حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا) کے ساتھ گورنر سٹیٹ بنک کے دستخط بھی ثبت ہوتے ہیں ۔ اس عبارت کا مطلب ہے کہ آپ سٹیٹ بنک کو یہ نوٹ دے کر اتنی ہی مالیت کا سونا حاصل کر سکتے ہیں ۔لیکن کیا عملی طور پہ ایسا ہے ؟ کیا سٹیٹ بنک آپ کو اتنی مالیت کا زر عطا کرے گا ؟ ہرگز نہیں ۔ اور اگر ایسا ہونے بھی لگے تو پاکستان کی صرف 20 فیصد آبادی سونا حاصل کر پائے گی باقی 80 فیصد کے ہاتھ میں موجود نوٹ کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ حیثیت نہیں پائیں گے ۔ جسے ہم مال و زر سمجھ کر بیٹھے ہیں اور جسکے حصول کی خاطر ہم زندگی لٹا رہے ہیں وہ واقعتاً ایک فریب ہے ۔یہ ہے سودی نظام معیشت جسکی عمارت جھوٹے اعداد و شمار کی بنیادوں پہ کھڑی ہے۔چند مٹھی بھر لوگ تمام تر وسائل پہ قابض ہیں اور سواد اعظم کا لہو چوس رہے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات کا حسن ہے کہ یہ ایک دوسرے سے باہم متصل ہوتی ہیں اور ان کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں جن امور کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو ان کی نقیض کو کسی صورت روا نہیں رکھا گیا ہے ۔مثلا ً پاکیزگی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو اسے محض جسمانی پاکیزگی تک محدود نہیں کیا گیا بلکہ روح کی پاکیزگی ، مال کی پاکیزگی اور سوچ کی پاکیزگی ، اخلاق کی پاکیزگی اور عمل کی پاکیزگی کے لیے بھی اسی طرح اہتمام کیا گیا ہے اور ہر اس چیز اور عمل سے منع کیا گیا ہے جو روحانی ، جسمانی ، علمی ، عملی ، مالی یا روحانی طور پہ نجاست کا باعث ہو۔اسلام نے جسے نجاست قرار دیا ہو اسے کسی بھی شکل میں قبول نہیں کرتا۔اسی طرح اسلام نے نہ صرف عدل کو پسند کیا ہے بلکہ ہر مسلمان کو عدل کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ عدل کی نقیض ظلم ہے اور ظلم و استحصال کسی بھی شکل میں روا نہیں ہے ۔معاشرے کو صحیح خطوط پہ چلانے کے لیے اسلام نے ایمانیات ، عبادات ، معاملات اور اخلاقیات میں عدل کو لازم قرار دیا ہے ۔ اس تناظرمیں تجارت کو دیکھا جائے تو یہ ایک حلال ذریعہ آمدن ہے اوراسے پسندیدہ قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ انبیاء علیہم السلام نے بھی اسے محمود سمجھ کر اختیار کیا ہے۔تجارت کی نقیض سود ہے ۔یہ ایسی مالی نجاست ہے جو اپنے اندر ہر طرح کا ظلم و استحصال سموئے ہوئے ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سود کی ہر شکل کو اسلام نے نہ صرف حرام قرار دیا ہے بلکہ اسے اللہ اور اسسکے رسول سے جنگ کے مترادف بھی قرار دیا ہے ۔ سود جسے عربی میں ربا کہتے ہیں ایک معاشی ناسور ہے جو تجارت کا دھوکا دے کر معاشرے کے افراد کو اپنے شکنجے میں جکڑتا ہے اور پھر معاشرہ اس ناسور کے زہر سے آلودہ ہو کر تباہی و بربادی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ یہ تجارت کے متوازی ایک نظام ہے جو مختلف صورتیں اور شکلیں رکھتا ہے ۔انتہائی سادہ الفاظ میں سود یا ربا وہ اضافی طے شدہ رقم یا جنس ہے جو مقروض سے قرض واپس لیتے وقت اصل مال کے علاوہ وصول کی جاتی ہے البتہ اگرمقروض شخص بلا طے کیے اگر اپنی خوشی سے کوئی اضافی مال ساتھ دے دے تو یہ سود نہیں کہلائے گا۔سود کی اس تعریف کو معاشرے کا ہر فرد با آسانی سمجھ سکتا ہے اور یہ سود کی سب سے سادہ قسم ہے ۔ادبی زبان میں سود کی تعریف یہ ہوگی کہ جنس کے بدلے میں اسی جنس کی تجارت کی جائے تو جو منافع حاصل ہو گااسے سود کہا جائے گا۔موجودہ دور میں سود نے ایسی پیچیدہ شکلیں اختیار کی ہیں کہ ایک عام آدمی تو کجا اچھے خاصے دیندار لوگ اور علماء بھی ان کے تعین میں مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ سود خواہ کسی بھی شکل میں ہو اسلامی تعلیمات اسے حرام قرار دیتی ہیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(سورہٴ البقرہ ۲۷۵) اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۶) اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جب سود کی حرمت کاحکم نازل ہوا تو لوگوں کا دوسروں پر جو کچھ بھی سود کا بقایا تھا، اس کو بھی لینے سے منع فرمادیاگیا: وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا اِنْ کُنْتُمْ مْوٴمِنِیْنَ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸) یعنی سود کا بقایا بھی چھوڑدو اگر تم ایمان والے ہو۔ يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَاْكُلُوْا الرِّبَآ اَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورۃ آل عمران 130 )اے ایمان والو! سود دونے پر دونا (کئی گنا) نہ کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارا چھٹکارا ہو۔اسی طرح احادیث مبارکہ بھی حرمت سود پہ دلالت کرتی ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے؛ چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں (صحیح مسلم ، باب حجة النبی )۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)۔مذکورہ بالا آیات کریمہ اور احادیث نبی ﷺ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت سود کو حرام قرار دیتی ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی محض حرام قرار دے کر خاموش نہیں ہو جاتیں بلکہ اسے دیگر گناہوں کے مقابل زیادہ بڑا گناہ قرار دیتی ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (سورہٴ البقرہ ۲۷۸ ۔ ۲۷۹) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ! سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے(رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر)۔ مشہور صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہٴ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر) سود میں آخر ایسی کیا بات ہے جو اس کے متعلق اتنی سخت وعید آئی ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ محض ایک ظلم ہی نہیں بلکہ استحصال ہے ۔ یعنی ایک مالدار شخص مقروض کو قرض دیتا ہے اور اسکی مشکل میں اسکی مدد کرتا ہے یہ عمل تو سراہے جانے کے قابل ہے اور اسے سراہا جاتا ے لیکن اسی نیکی کے عوض وہ مقروض کے پاس موجود رقم بھی ہتھیا لیتا ہے ۔ یہاں ظالم بظاہر نیکی کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن اس نیکی کی آڑ میں وہ مظلوم کا خون نچوڑ رہا ہوتا ہے ۔سود کی حرمت کے پیچھے جو سبب ہے وہ یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے دوسرے کا مال آپ پہ حرام کر دیا ہے جیسے اس کی جان ، عزت و آبرو آپ پہ حرام ہے ۔کسی کا مال اسکی اجازت کے بغیر لینا چوری ہے اور یہ حرام ہے اور اسکے مرتکب کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا ہے ۔ کسی سے زبردستی مال چھین لینا ڈاکا زنی ہے اور یہ حرام ہے اس کی سزا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ کا کاٹ دینا ہے ۔کسی کے مال پہ قابض ہونا حرام ہے ، کسی سے مانگ کر اسکا مال لینا گداگری ہے یہ بھی حرام ہے ۔کسی کا جائز یا ناجائز کام کرنے کا عوض وصول کرنا رشوت ہے اور یہ بھی حرام ہے اور رشوت لینے اور دینے والے کو جہنمی قرار دیا گیا ہے ۔اسی طرح جوا اور شرط کے ذریعے دوسرے کا مال حاصل کرنا بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مال کا حصول بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔اسی طرح کسی کے ساتھ نیکی کے بہانے اسے قرض دے کر اسکا مال لوٹ لینا سود ہے اور یہ بھی حرام ہے اور اسے اسی لیے اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا ہے ۔گزشتہ سطور میں جتنے معاشی جرائم کا ذکر ہوا ہے ان جرائم کا کی چوٹی سود ہی ہے ۔ معاشرہ جب سود کو قبول کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کے مال کو ہتھیانے کو آپ جائز قرار دے رہے ہیں ۔ اب ہر شخص اپنے طریقے سے دوسرے کے مال کو ہڑپ کرنے ی کوشش کرے گا ۔اگر سودی نظام کو روا رکھا جائے گا تو معاشرے میں ان جرائم کا عام ہونا انہونی بات نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ ہمارا معاشرہ ، چوری ، ڈاکازنی، رشوت و بدعنوانی ، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، گداگری قبضہ مافیا اور دیگر جرائم کا بری طرح شکار ہے ۔یہ تو وہ جرائم ہیں جو عوام کے مال پہ قبضے کے لیے ہوتے ہیں لوگ اس پہ اکتفا نہیں کرتے پھر سمگلنگ، بجلی چوری ، گیس چوری اور ٹیکس چوری جیسے جرائم کر کے سرکاری مال پہ بھی ہاتھ صاف کرتے ہیں ۔ ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات حرمت سود کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین کی جانی چاہیے کہ اسلام ارتکاز مال کے بجائے گردش زر اور دولت کی عادلانہ تقسیم کا قائل ہے ۔ لہذا اسلامی تعلیمات دولت جمع کرنے اور ہوس زر کی نفی کرتی ہیں اور جابجا صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ پہ ابھارتی ہیں ۔اسلام حلال طریقے سے دولت کمانے کو پسند کرتا ہے اور نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ " الکاسب حبیب اللہ " کسب حلال کرنے والا اللہ کا دوست ہے ۔جبکہ سودی معیشت دولت کو اکٹھا کرنے کا نظام ہے ۔ اگر لوگ اپنے مال کی بڑھوتری کے لیے سود پہ لگاتے رہیں تو معیشت کا پہیہ جام ہو جائے گا ۔ امیر اپنے سرمائے سے امیر تر اور غریب مزید غریب تر ہو جائے گا ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ حاصل شدہ اور جمع شدہ زر کسی پیداوار کا ذریعہ نہیں بنتا لہذا مہنگائی بڑہتی ہے ۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے ۔ دوسری جانب اگر اسی زر کو کاروبار میں لگایاجائے اور صنعتیں لگائی جائیں تو اس کے نتیجے میں پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے اور روزگار کے مواقع جنم لیتے ہیں ۔ ایک کاروبار سے کئی گھرانوں کے چولھے جلتے ہیں ۔ معاشرے میں آسودگی آتی ہے ترقی کا پہیہ تیزی سے چلتا ہے ۔اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق کاروبار چلایاجائے تب بھی پیسہ اپنی فطرت کے تحت زیادہ پیسے کی جانب کھچتا ہے ایسے میں بھی دولت کے ایک جگہ ارتکاز کا خطرہ ہے ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے اسلام نے زکوۃ و صدقات کا نظام وضع کیا ہے ۔ اس طرح امراء کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے مال سے زکوۃ اور صدقات نکال کر غرباء کی مدد کریں ۔ اس طرح دولت امیر کی تجوری میں جمع ہونے کے بجائے معاشی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے غریب کی خوشحالی کا سبب بنتی ہے ۔ یوں یہ دولت گردش کرتی ہے اور معاشرہ امن و سلامتی کے ساتھ فلاح کی جانب بڑھتا ہے ۔ عام آدمی کی نظر میں سود کا صرف یہی خاکہ ہے کہ قرض پہ لیا جانے والا منافع سود ہےحالانکہ سود کئی شکلوں میں ہمارے ہاں رائج ہے ۔ ۔ لیکن دراصل یہ اس سے بڑھ کر ایک نظام معیشت ہے ۔ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے ہمارے ہاں باغات اور فصلوںکی خریدو فروخت پھل لگنے سے پہلے ہو جاتی ہے ۔ تجارت کی یہ قسم بھی سود کی پیچیدہ اقسام میں سے ایک ہے اس لیے یہ بھی حرام ہے۔اسی طرح بعض علاقوں میں جنگلات کی ملکیت رکھنے والے حضرات پرندوں اور جانوروں کی فروخت اس طرح کرتے ہیں کہ اس علاقے میں جتنے پرندے یا جانور ہیں وہ اس قیمت کے عوض آپ کے ہوئے ۔ یہ بھی سود کی ایک قسم ہے اور حرام ہے ۔بالکل اسی طرح بہتے دریا یا بڑے تالاب میں موجود مچھلیوں کی تجارت کرنا جبکہ ان کی تعداد یا وزن معلوم نہ ہو یہ بھی سودی تجارت ہے اور حرام ہے اس کے حرام ہونے کی وجہ غرر ہے یعنی دھوکا کیونکہ آپ کو مال تجارت کی مقدار کا علم نہیں ہے اور آپ اسے فروخت کر رہے ہیں اس طرح کی تجارت میں مشتری (Costumer)یا بائع(Vender) میں سے کوئی ایک فریق نقصان اٹھاتا ہے ۔جدید دور میں بینکنگ ،پرائز بانڈ کا کاروبار، کرنسی ایکسچینج ، بیمہ و انشورنس پالیسیاں ، قسطوں پہ اشیاء ضروریہ کی تجارت کے نام پہ سود کے نئے طریقے آزما کر لوگوںکو جال میں پھنسایا جا رہا ہے ۔بجلی ، گیس ، پانی ، ٹیلی فون وغیرہ کے بلات پہ ایک نظر دوڑائیے مقررہ تاریخ تک جمع نہ کرانے کی صورت میں جو اضافی بل آپکو دینا پڑتا ہے وہ سود ہی تو ہے ۔یہ محض حکومتی بلات تک محدود نہیں ہے سکول کی فیس ، زمین و جائیداد کی قسطوں میں تاخیر پہ بھی جرمانہ وصول کرنے کا رواج ہے یہ سب سودی نظام کا شاخسانہ ہے ۔ علاوہ ازیں ٹیلی فون اور موبائل کی کمپنیاں انتہائی چھوٹے پیمانے پر ایڈوانس کے نام پر بیلنس فراہم کرتی ہیں اور واپسی پہ سود وصول کرتی ہیں ان کا جمع شدہ سود کروڑوں اور اربوں میں ہوتا ہے ۔ سود کی عام شکل ہر شخص کو مکروہ لگتی ہے اور لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس کی جسید اور پیچیدہ صورت اتنی دلکش ہوتی ہے کہ لوگ بڑی رغبت کے ساتھ اس کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں ۔مشیئت کا مذاق اڑانے والا جدید انسان حرمت سود پہ بھی نالاں ہے اور اسے زیادتی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے ۔ کچھ اہل علم بھی مغربیت کاور استشراق کا شکار ہوکر سودی معیشت کے ہمنوا ہو گئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی من مانی تأویلات کرنے لگے ہیں ۔یہ لوگ سود کو تجارت قرار دے کر اسے حلال قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کے قہر سے بچ جائیں گے لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ ان کے بارے میں حق جل شانہ کا فرمان ہے ۔: اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُونَ اِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے: ذَلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا (سورہٴ البقرہ ۲۷۵) یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع یعنی خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔ سودی معیشت کی تباہ کاریوں سے آگاہ دینی طبقہ بھی دو طرح سے اس نظام کے خلاف نبرد آزما ہے ۔ایک طبقہ اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بات کرتا ہے اور اس کی جگہ اسلامی نظام لانے کا حامی ہے تو دوسرا طبقہ اس نظام کے اداروں کو اسلامانے پہ لگا ہے ۔ اسلامی بینکنگ اور کفالہ وغیرہ اسی طبقے نے متعارف کرائے ہیں ۔ اس حوالے سے راقم کی رائے یہ ہے کہ جس چیز کی بنیاد ہی غیر اسلامی ہو اس پہ اسلامی عمارت کیونکر تعمیر ہو سکتی ہے ۔ اگر کریلے کا بیج بو یا جائے تو اس سے کریلے کی بیل برآمد ہو گی۔ اگر اس بیل کے پتون کو انگور کی شکل میں ڈھال بھی دیا جائے تو بھی اس پہ لگنے والا پھل کڑوا کسیلا کریلا ہی ہوگا نہ کہ انگور۔ لہذا سودی اداروں کو اسلامانے پہ اپنی توانائی صرف کرنے کے بجائے اس نظام سود کی بیخکنی اور اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کی عملی جدوجہد کرنا چاہیے ۔ دیندار طبقے میں ایک ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ حلال رزق کما رہا ہے اور عبادات و نوافل میں مشغول ہے لہذا وہ اس سودی نظام کا حصہ نہیں ہے تو وہ بھی خام خیالی کا شکار ہے ۔ایسے افراد سے گزارش ہے کہ اپنی جیبوں کو ٹٹولیے اگر ان میں کرنسی نوٹ موجود ہے تو یہ اسی سودی معیشت میں آپ کی شمولیت کا ثبوت ہے اور اس پہ مستزاد بجلی، گیس و ٹیلی فون کے بل اگر آپ کے گھر میں ہیں تو آپ اس نظام کے شکنجے میں ہیں اور اسی نظام کا حصہ ہیں ۔ ہم سب کسب حلال کے باوجود سو فی صد خالص لقمہ حلال اپنے اور اہل خانہ کے حلق سے اتارنے سے قاصر ہیں ۔ اگر صورتحال اتنی ہی گھمبیر ہے اور رزق حلال کمانے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو پھر عوام کو کیا کرنا چاہیے ؟ کیا وہ حلال و حرام کے چکر چھوڑ کر اسی نظام کی لہروں کے سپرد ہو جائیں ؟ اگر ایسا نہیں کرتے تو ان کے پاس اس نظام سے جان چھڑانے کا کیا طریقہ کار ہے ۔اسلام کسی بھی شخص پہ اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔لہذا ہر شخص پہ لازم ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنی قوت کو اس نظام بال کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے استعمال کرے۔ اپنی گفتار ، تحریر اور کردار سے سود ی معیشت کے خلاف رائے عامہ ہموار کریں اور ان لوگون کے دست و بازو بنیں جو سودی نظام سے لڑنے اور اسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کمربستہ ہوں ۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی پاکستان نے سود کے خلاف عملی اقدام اٹھایا ہے ۔ بانی جماعت نے احرمت سود اور اسلامی نظام معیشت کے حوالے سے کتب تحریر کی ہیں جو اب بھی جماعت اسلامی کے لٹریچر کا حصہ ہیں ۔ ان کتب کے ذریعے سے ارباب اختیار ، اہل دانش اور عوام الناس کے ضمیرون کو جنجھوڑا گیا ۔ اور سود کی تباہ کاریو ں اور اسلامی نظام معیشت کے فوائد کو اجاگر کیا گیا۔ اسلامی نظام معیشت جماعت اسلامی کے منشور کا جزو لاینفعک رہی ہے اور اب اس سودی نظام کو عدالت میں للکارا ہے ۔ پاکستان سے سود کے انسداد کے لیے کمربستہ جماعت اسلامی نے عدالتی محاذ پہ سودی معیشت کے علمبرداروں کو شکست دی ہے لیکن ریاست مدینہ کے دعویدار موجودہ حکمران اس نظام باطل کے تحفظ کے لیے میدان میں کود پڑے ہیں ۔ یہ موقع ہے کہ پاکستان کے عوام خود کو سودی نظام کی زنجیروں سے آزاد کرانے کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد کا ساتھ دیں ۔ تاکہ حکومت اور عدلیہ پہ دباؤ پڑے اور وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ سے باز آجائیں ۔ اگر پاکستان سے سودی نظام کو اٹھا لیا جاتا ہے اور اس کی جگہ اسلامی نظام معیشت کو رائج کیا جاتا ہے تو جلد اس ملک کی ترقی کا پہیہ گھومے گا اور یہاں امن و خوشحالی کا راج ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ میرے وطن پہ چھائی خزاں کا خاتمہ کرے اور یہاں بہار مسکرائے آمین۔
|