ہولو کاسٹ یا یہودیوں کا قتل عام، تاریخ اس حوالے سے کیا کہتی ہے اور اس کا انکار دنیا کے کئی ممالک میں قابل سزا جرم کیسے ہے؟

image
 
دوسری جنگ عظیم جو کہ 1939 سے 1945 کے درمیان ہوئی جہاں بہت سارے حوالوں سے یادگار ہے وہیں اس جنگ عظیم میں ہولو کاسٹ یا دوسرے لفظوں میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قتل عام وہ متنازعہ واقعہ ہے جس پر آج تک مختلف مکتبہ فکر الگ الگ رائے رکھتے ہیں- اس کی حمایت اور اس واقعے سے اختلاف رکھنے والے افراد کے درمیان بحث کو روکنے کے لیے دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں اس موضوع سے اختلاف رکھنا قانوناً جرم ہے-
 
ہولو کاسٹ کی تاریخ
لفظ ہولو کاسٹ کے لفظی معنی آگ میں مکمل طور پر جل کر قربانی دینا ہے مگر اس لفظ کا استعمال یہودی حلقہ ان یہودیوں کے لیے استعمال کرتا ہے جن کو نازیوں یا اس کے حمائتیوں نے 1939 سے 1945 کے درمیان مار ڈالا تھا اور ان کے مطابق یہ تعداد ساٹھ لاکھ تک ہے- اس الزام نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر ڈالا جن میں سے ایک طبقہ فکر یہودیوں کی حمایت میں اس قتل عام کو یہودیوں کی نسل کشی قرار دے کر ان کو مظلوم ثابت کرتا ہے جب کہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہ دلائل کی بنیاد پر ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتا ہے- یہودی اس قتل عام کی سراسر ذمہ داری جرمن لیڈر ایڈلف ہٹلر پر ڈالتے ہیں یہودیوں کے بارے میں ہٹلر کی نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی کتاب میں ان کا یہودیوں کے بارے کہا کہ طویل مطالعہ اور تحقیق کے بعد میں اس نتیحہ پر پہنچا ہوں کہ یہودی اور ان کی سرمایہ داری طاقت ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے-
 
جرمنی میں یہودیوں سے نفرت ہولوکاسٹ کا ایک ثبوت
ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی کی سرزمین یہودیوں کے لیے تنگ ہونے لگی اور ان کو ان کی ملازمتوں اور کاروباروں سے ہاتھ دھونا شروع ہو گیا تھا- یہاں تک کہ ایک قانون کے ذریعے ان سے جرمنی میں شہریت رکھنے کے حق سے بھی ان کو محروم کر دیا گیا تھا- اسی دوران فرانس میں ایک یہودی کے ہاتھوں جرمن سرکاری ملازم کی موت نے اس نفرت کو جرمنی کی سرحد سے نکال کر فرانس میں بھی پھیلا دیا اور پورے فرانس میں فسادات پھوٹ پڑے- جس کے بعد فرانس کی سرزمین بھی یہودیوں کے لیے تنگ ہو گئی اس وقت میں فرانس میں 32 ملکوں کا ایک سربراہ اجلاس ہوا جس میں اس مسئلے پر غور کیا گیا کہ کون سا ملک یہودیوں کو اپنے ملک میں پناہ دے سکتا ہے- مگر امریکہ سمیت کسی بھی ملک نے یہودیوں کی ذمہ داری سنبھالنے سے انکار کر دیا اور اسی دوران دنیا بھر میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہو گیا-
 
image
 
دوسری جنگ عظيم اور یہودیوں کے مطابق ہولو کاسٹ
اس جنگ میں جس کا آغاز 1939 میں ہوا جرمنی نے جب آسٹریلیا پر قبضہ حاصل کیا تو وہاں کے یہودی بھی ان کے ظلم کا نشانہ بنے اس کے ساتھ ساتھ روس پر بھی جرمنی کے قبضے کے بعد یہودی یہاں پر بھی ظلم کا شکار ہونا شروع ہو گئے- یہاں تک کہ 1942 میں جرمنی کی جانب سے یہودیوں کے مسئلے کے آخری حل پر عمل درآمد شروع ہوا اور دنیا بھر سے یہودیوں کو مختلف ذریعوں سے موت کے کیمپوں میں پہنچایا گیا اور ان کو زہریلی گیس کی مدد سے ہلاک کر دیا جاتا اور ان کی لاشوں کو تلف کر دیا جاتا ۔یہودیوں کے مطابق اس طرح تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا اور ان کی نسل کشی کی گئی جسکے بعد 1948 میں جیوئش نیشنل کونسل نے اسرائيل کے قیام کا اعلان کر دیا -
 
یہودیوں کے دعویٰ کی مخالفت میں ثبوت
دوسری جنگ عظیم میں جنگی جرائم کا سراغ لگانے اور ان کے مقدمات کے لیے ایک ٹریبونل قائم کیا گیا جس میں یہ انکشاف ہوا کہ جنگی کیمپوں میں بوڑھے اور بچے قیدیوں کو زہر دے کر یا مختلف طریقوں سے مار دیا جاتا تھا جب کہ جوانوں کو بیگار کے لیے زںدہ رکھا جاتا تھا اور اس موقع پر ان کیمپوں کے ذمہ داران کے ایسے بیانات بھی شامل ہیں جس میں یہ اعتراف کیا گیا کہ ان کیمپوں میں لاکھوں افراد کو جرمنی کے لوگوں نے زہریلی گیس سے ہلاک کر کے ان کی لاشوں کو راکھ میں بدل کر کھیتوں میں ڈال دیا گیا- مگر بعد میں وقت نے یہ ثابت کیا کہ امریکیوں نے یہ اقبالی بیان شدید ترین تشدد کے بعد حاصل کیے اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ ان نازمی کیمپوں میں موت کی شرح میں زیادتی کا سبب عام بیماریاں اور صحت کی بد ترین صورتحال تھی-
 
image
 
ہولو کاسٹ سے انکار کرنے والوں کے خلاف قانون
دنیا کے دس ممالک بشمول اسرائیل ایسے ہیں جہاں پر ہولوکاسٹ کے واقعے کا انکار ایک قابل سزا جرم ہے اور اس پر کسی قسم کی تحقیق کرنا منع ہے ان ممالک میں فرانس ،بیلجیم ، آسٹریا ،رومانیہ ،سلواکیہ چیک ری پبلک، لتھوانیا ،پولینڈ،جرمنی اور سوئزلینڈ اور جرمنی شامل ہیں -
 
ہولو کاسٹ کے متعلق آچ بھی تاریخ کے طالب علموں میں بہت ابہام پایا جاتا ہے اور وہ اس کے لیے تحقیق کر رہے ہین مگر دنیا کی بڑی سپر پاورز نہیں جاہتی ہیں کہ اس حوالے سے حقیقت سے پردہ اٹھے اسی وجہ سے یہ موضوع آج تک متنازعہ ہے -
YOU MAY ALSO LIKE: