حادثے سے وجود میں آنے والی ’’عطا باد جھیل ‘‘ ، جس کا نیلا پانی انسان کو سحر میں جکڑنے کیلئے کافی ہے

image
 
صوبہ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ اپنی خوبصورتی کے حوالے سے پہلے ہی دنیا بھر مشہور ہے ، یہاں کی عطا آباد جھیل اس وقت سیاحوں کے پسندیدہ مقامات میں سے ایک ہے۔ آج سے دس سال قبل تک اس جھیل کا نام ونشان تک نہ تھا، کیونکہ یہ جھیل ایک حادثے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے ، ہوا کچھ یوں کہ جنوری سال 2010 میں پہاڑ کے ایک حصہ سرک کیا گیا تھا، جس کے سرکنے یعنی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں یہ جھیل وجود میں آئی۔
 
اس حادثے کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے ۔ شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ اس میں دب گیا اور دریائے ہنزہ کا بہاؤ 5 ماہ کے لیے رک گیا تھا ۔ جھیل کے بننے اور اس کی سطح بلند ہونے سے کم از کم 6 ہزار افراد بے گھر ہوئے جبکہ 25 ہزار افراد اس حادثے سے متاثر ہوئے تھے۔ جب اس حادثے پر تحقیق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ شاہراہ قراقرم کا 19 کلومیٹر طویل حصہ بھی اس جھیل میں ڈوب گیا ہے ۔ جون 2010 کے پہلے ہفتے میں اس جھیل کی لمبائی 21 کلومیٹر جبکہ گہرائی 100 میٹر سے زیادہ ہو چکی تھی ۔ اس وقت پانی زمین کے سرکنے سے بننے والے عارضی بند کے اوپر سے ہو کر بہنے لگا تھا ۔ تاہم اس وقت تک ششکٹ گائوں (Shishkat) کا نچلا حصہ اور گلمت گائوں (Gulmit) کے کچھ حصے زیر آب آ چکے تھے۔ گوجال کا سب ڈویژن اس جھیل کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، جہاں 170 سے زیادہ گھر اور 120 سے زیادہ دکانیں سیلاب کی وجہ سے بہہ گئیں ۔ اس دوران شاہراہ قراقرم کے بند ہونے سے خوراک اور دیگر ضروری ساز و سامان کی قلت پیدا ہو گئی تھی اور یہاں رہنے والے رہائشیوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ 4 جون کو جھیل سے نکلنے والے پانی کی مقدار 3700 فٹ فی سیکنڈ ہو چکی تھی۔ اس وقت تو لوگوں کیلئے ابتدائی کچھ ماہ مشکلات کا باعث بنے تاہم اب دس سال گزرنے کے بعد اس جھیل کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو بہت فائدہ ہورہا ہے ۔
 
image
 
اب اس جھیل کے نزدیک گیسٹ ہاؤسز اور چھوٹے ہوٹلز بنادئیے گئے ہیں ،جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو روزگار میسر آرہا ہے ۔ دس سال قبل پیش آنے والے اس حادثے کی صورت میں یہ نیلے پانی والی خوبصورت جھیل وجود میں آئی جو کہ آج اس وادی کا سب سے زیادہ پسندیدہ سیاحتی مقام ہے۔ اس جھیل کے نیلے پانی اور اس کے اردگرد موجود بلند و بالا پہاڑوں کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے انسان اس دنیا میں موجود نہ ہو ، بلکہ کسی شاعر نے شعر کی صورت میں کسی جگہ کی خوبصورتی کی تعریف کی ہو اور انسان اسی جگہ پر خیالی دنیا میں پہنچ چکا ہو۔
 
یہاں کب آئیں؟
وہ سیاح جنہیں عطاباد جھیل کو برف سے جمی ہوئی حالت میں دیکھنے کی خواہش ہے ، وہ یہاں سردیوں میں آئیں ، کیونکہ سردیوں میں سیاح اگر اس جھیل کی سیر کو آئیں گے تو انہیں جھیل جمی ہوئی ملے گی اور یہ نظارہ ان کیلئے دلچسپی کا باعث ہوگا ۔ وہ لوگ جو بوٹنگ کرنے یا مچھلیاں پکڑنے کی خواہش رکھتے ہیں ، وہ موسم بہار اور گرمیوں کے دوران اس جھیل کو دیکھنے کیلئے یہاں آئیں ، اس موسم میں جھیل کا نیلا پانی انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے ۔ سیاح یہاں آکر بوٹنگ ، جیٹ اسکی اینگ اور مچھلیاں پکڑ سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہاں شاہراہ کو دوبارہ تعمیر کرکے نئے سرنگ بنا دی گئی ہیں ، تاکہ سیاح آرام سے یہاں پہنچ سکیں ۔
 
image
 
کس طرح آئیں ؟
جنہیں اس جھیل تک آنا ہے وہ وادی ہنزہ کے علاقے کریم آباد تک پہنچ جائیں، کریم آباد سے مشرق کی جانب آدھے گھنٹے سفر کریں گے تو وادی گوجال تک پہنچ جائیں گے، جہاں عطاباد جھیل موجود ہے۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ کریم آباد پہنچنے کے بعد کسی مقامی گائیڈ یا ٹورسٹ گروپ کو جوائن کرلیں ، چونکہ ان لوگوں کو یہاں کے تمام مقامات کا پتا ہوتا ہے ، لہذا آپ کو اس جگہ اور عطاباد جھیل کی خوبصورتی کو اچھے انداز میں دکھا سکیں گے ۔ سیاح چاہیں تو اسلام آباد سے یہاں کیلئے چار دن کا ٹور بنائیں ، چار دنوں میں وادی ہنزہ، عطاباد جھیل اور پاک چین بارڈر کی سیر کریں اور یہاں کی خوبصورتی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔
image
YOU MAY ALSO LIKE: