سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ نے دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے
اس جدید ٹیکنالوجی نے معاشرے پر مثبت کے ساتھ بہت سے منفی اثرات بھی چھوڑے
ہیں، ان میں پورنوگرافی سرفہرست ہے۔ پاکستان میں پورنوگرافی تیار کرنا، اسے
رکھنا اور دیکھنا قانوناً جرم ہے، مگر ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو
پورنوگرافی دیکھنے والے ممالک میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے، یہ لمحہ فکریہ
ہے کہ پورنوگرافی دیکھنے والوں میں اکثریت نوجوان نسل کی ہے، جو انسانوں
بالخصوص بچوں کے علاوہ سور، گدھے، کتوں، بلیوں جانوروں اور سانپ جیسے حشرات
کے فحش مواد دیکھتے ہیں، مزید یہ کہ فحش مواد تلاش کرنے والے 8 ملکوں کے
نوجوانوں میں 6 مسلمان ریاستیں شامل ہیں۔ اس میں سرفہرست مصر، جبکہ ایران،
مراکش، سعودی عرب اور ترکی،بالترتیب چوتھے، پانچویں، ساتویں اور آٹھویں
نمبر پر ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ خطہ میں فحش مواد (پورنوگرافی) کا
رجحان بڑھتا جا رہا ہے، اس کی روک تھام میں کوئی ملک مناسب کامیابی حاصل
نہیں کر پایا،لبنان اور ترکی کے قریبی عرب ملک میں فحش مواد پر صرف نام کی
پابندی ہے، سعودی عرب کی حکومت نے بھی کچھ عرصہ قبل فحش مواد سے وابستہ 9
ہزار ٹویٹر اکاؤنٹس کو ہیک اور غیر فعال کر دیا تھا اور کئی ایسے اکاؤنٹ
ہولڈرز جو پورنوگرافی کے پھیلاؤ کے مرتکب ہو رہے تھے کو گرفتار کیا گیا۔
حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے بہت ساری مسلم ریاستوں نے سماجی اخلاقیات
کی اس برائی کی روک تھام کا واضح اعلان کیا،اور اس بابت اپنے اپنے ممالک
میں قانون سازی کی۔اور ایسے مکروہ دھندہ میں ملوث ملزمان کی سزاوں میں
اضافہ بھی کیا۔ مگر موجودہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک کی
عوام اب بھی کسی نہ کسی طرح سے پورنوگرافی تیار کرنے کے ساتھ اسے پھیلا نے
اور دیکھنے میں مصروف ہیں۔ حکومت پاکستان نے 2011 میں انٹر نیٹ پر موجود
تمام پورنوگرافی ویب سائٹس پر پابندی عائد کر دی تھی اور ویب سائیٹ اور
سوشل میڈیا پر موجود فحش مواد تلف کروادیا تھا۔مگر پورنو گرافی ویڈیو تیار
کرنے والوں نے پاکستان کی کمیونیکیشن کمپنیز کی بجائے بیرون ممالک کے قابل
استعمال انٹرنیٹ کمپنیوں اور ویب سائیٹ سے لنک خرید کر یہ دھندہ شروع کر
رکھا ہے جس کا ڈیٹا پاکستانی کمپنیوں کی دسترس میں نہیں آتا اور ان غیر
ملکی کمپنیوں کو رقم کریڈٹ کارڈ کے ذریعے منتقل کی جاتی ہے۔
پابندی کے باوجود پاکستان سمیت یورپی و ایشیائی ممالک کی اکثریت میں
پورنوگرافی اب بھی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے نقصانات نے یورپی
اور مسلم ممالک کے ارباب اختیار کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کیونکہ ان
ممالک کی نسل نو پورنوگرافی جیسی لعنت میں مبتلا ہو کر جنسی بے راہ روی کا
شکار ہورہی ہے جس سے ان ممالک میں مختلف طرح کا اخلاقی بگاڑ پیدا ہونے کے
ساتھ بچوں اور کم سن بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ
دیکھنے میں آرہا ہے جس کی بڑی وجہ انسانی فطرت میں اخلاقی گراوٹ اور انٹر
نیٹ پر موجود چائلڈ پورنوگرافی کا مواد ہے جو اب کاروبار کی صورت اختیار کر
چکا ہے، اسے برائی کی ترغیب دینے کا ذریعہ کہیں تو یہ غلط نہ ہو گا۔
انسانیت کے سب سے نچلے درجہ سے گر جانے والے اس فعل کے مرتکب افراد پورنو
گرافی ویڈیوز خرید کر دیکھنے کے بعد اس شیطانی فعل کو کرنے کی جسارت میں
کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے، چائلڈ پورنوگرافی کا کاروبار کرنے والے افراد
بچوں کی ویڈیو بنا کر بدنام زمانہ ڈارک ویب یا کسی دیگر ذرائع سے ویڈیو کے
شوقین ذہنی مریض لوگوں کو فروخت کر کے لاکھوں نہیں کروڑوں روپے کما رہے ہیں
جب کہ پورنو گرافی تک رسائی حاصل کرنے والی نوجوان نسل اخلاقی طورپراس حد
تک گر چکی ہے کہ بظاہر تو یہ انسان مگر اندر سے جنسی فاقہ کش درندے ہیں۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ اور پورنو گرافی کی روک تھام کیلئے
سینکڑوں کی تعداد میں سماجی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جن کے ارباب اختیار
پاکستان اور بیرونی ممالک سے کروڑوں روپے سالانہ امداد کی مد میں حاصل کر
رہے ہیں، جن کی کارکردگی صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود ہے، اور یہ تنظیمیں
بیرونی ممالک سے امداد حاصل کرنے کیلئے فوٹو سیشن تقریبات کر کے ملکی وغیر
ملکی ڈونرز(مددگارز) کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا
بھر کی طرح پاکستان میں بھی پورنوگرافی بالخصوص چائلڈ پورنوگرافی کا سلسلہ
روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ جس کے مضر اثرات کے باعث پاکستان میں آئے روز
بچوں سے زیادتی کے دل دہلا دینے والے واقعات کا سامنے آنا معاشرے کی اخلاقی
پستی ظاہر کرتی ہے، جبکہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعات کے بعد سسکتے تڑپتے
والدین کو دیکھ کر ہر درد دل رکھنے والے شخص کی روح کانپ اٹھتی ہے، ایسے
واقعات کا ایک اسلامی ملک میں ہونا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اس ملک
کے حکمران اور باسیوں نے اسلامی قوانین کو پس پشت ڈال دیا ہے؟ اگر اسلامی
قوانین نافذ ہوں اور ان پر سختی سے عمل درآمد ہو تو ایسے واقعات کا خاتمہ
ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بظاہر تو پورنوگرافی پر پابندی ہے؟ مگر حقیقت
میں ایسا نہیں ہے، پاکستان کے بڑے چھوٹے شہروں میں پورنوگرافی جیسی لعنت
تیار کرنے والے درجنوں گروہ ہیں اور پورنوگرافی دیکھنے والوں کی تعداد
لاکھوں میں ہے، ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل نے مختلف اوقات میں
پورنوگرافی ویڈیو تیار کر کے فروخت کرنے والے گروہوں جن کا تعلق کراچی،
سرگودھا، لاہور اور دیگر اضلاع سے تھا کو گرفتار کیا، تفتیش کی تو ان کے
تانے بانے بیرونی ممالک کے بدنام زمانہ ڈارک ویب سے جا ملے، جو کہ دنیا بھر
میں پورنوگرافی کے ذریعے نسل نو کو تباہ کرنے والا دنیا میں بڑا نیٹ ورک
ہے، پکڑے جانے والے ان گروہوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے، مگر قانونی سقم کے
باعث عدالتوں سے کم سزائیں ہونے اور مقدمات کی مناسب پیروی نہ ہونے کے باعث
ہر گروہ کا ملزم کچھ عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہو گیا۔ اس لئے اب
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں معاشرے کو سدھارنے کیلئے حکومت وقت
ترجیح بنیادوں پر پورنوگرافی جیسے مکروہ دھندہ میں ملوث ملزمان کو سخت سے
سخت سزائیں دلوانے کیلئے قانون سازی کرے؟ اگر ایسا نہ کیا گیا تو معصوم
زینب جیسی لاشیں ملتی رہیں گی اور قصور جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔؟
|