اب سے تقریباً دو سال قبل ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی
دو ہندو بہنوں نے گھر سے بھاگ کر دو مسلمان لڑکوں سے شادی کر لی تھی اور
اسلام قبول کر لیا تھا ۔ اس کی وجہ ان کی غربت معاشی حالت یا اسلام سے محبت
ہرگز بھی نہیں تھی یہ خالصتاً عاشقی معشوقی والا معاملہ تھا کیونکہ وہ لڑکے
انہی کے محلے کے تھے اور کسی لارڈ صاحب کی اولاد نہیں تھے ۔ انہی کی طرح کے
ٹٹ پونجیے اور پہلے سے شادی شدہ بھی تھے ۔ پھر یقیناً کسی این جی او یا
فیمینسٹ گروپ کی طرف سے اپنے خرچ پر انہیں تحفظ کے نام پر شمالی علاقہ جات
بھیجا گیا ۔ وہاں ہنی مون منا کر اور پھر عدالتی فیصلے کے بعد جب یہ لوگ
واپس اپنے گاؤں پہنچے تو ان کا ایسا استقبال کیا گیا جیسے محاذ جنگ سے
سرخرو ہو کر واپس لوٹے ہوں ۔ باقاعدہ جلوس نکالا گیا اور خود اپنی بہن
بیٹیوں تو کیا محض شک و شبے کی بناء پر ماں تک کو ٹھکانے لگا دینے والے
غیرتمند مرد مجاہد ان کی گاڑی کے ساتھ ساتھ باراتیوں کی طرح وفور مسرت سے
بےحال تھے ۔ اور باقی کی غیر مسلم لڑکیوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ چوری
چھپے گھر سے بھاگ کر اور اپنے ماں باپ کی عزت خاک میں ملا کر اسلام قبول
کرنے اور شادی کرنے پر ایسی ہی پذیرائی نصیب ہوتی ہے لہٰذا وہ بھی ہمت کریں
اور ایسی مزید مثالیں قائم کر کے تاریخ میں اپنا نام لکھوائیں ۔
کیا کوئی جانتا ہے کہ اب یہ لڑکیاں کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ نا تو یہ
بہت کم عمر تھیں اور نا ہی یہ اغواء ہوئی تھیں اپنی مرضی سے اپنے عاشقوں کے
ساتھ گھر سے فرار ہوئیں اوراپنے اس اقدام کو قانونی اور شرعی جواز دینے کے
لیے اپنی خوشی سے مسلمان ہوئیں ۔ چار دن کی چاندنی کے بعد کیا مستقبل ہوتا
ہے ایسی لڑکیوں کا؟ یہ مرتے دم تک گھر سے بھاگی ہوئی کہلاتی ہیں اور یہ
طعنہ خود انہیں بھگانے والا بھی دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایسی عورت سے اس
کی بیٹی بھی نہ پیدا ہونے پائے کہ کہیں اپنی ماں پر نا پڑ جائے ۔ بالکل اسی
طرح اپنی بیٹی بھاگے تو ان کی ناک کٹ جاتی ہے مگر دوسروں کی بھگانا ان کے
نزدیک عین ثواب کا کام ہے ۔
مسیحی بچی آرزو کی وڈیوز کو دیکھ کر بھی کہیں سے نہیں لگتا کہ اسے اغواء
کیا گیا ہے بلاشبہ یہ اپنے حالات اور غربت سے تنگ آ کر اس چوالیس سالہ
کھوسٹ کے ساتھ گھر سے فرار ہوئی ۔ بچی تو ناسمجھ تھی مگر اسے بھگانے والے
ایک بےغیرت مسلمان کو شرم آنی چاہیئے تھی کچھ تو اپنے گریبان میں منہ ڈال
کر دیکھتا اور سمجھتا ۔ وہ بچی کو اپنی بیٹی سمجھ کر بھی تو اس کی مدد کر
سکتا تھا مگر وہ تو اپنی ہوس کے ہاتھوں اندھا ہو چکا تھا ۔ اور بچی کے
والدین نے بھی جس طرح اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور ایک غیر ، مسلمان
مرد کی گھر میں آمد و رفت اور اس کی نوازشوں سے انجان بنے ہوئے تھے تو پھر
یہ دن تو دیکھنا ہی تھا ۔ بچی کا لالچ میں آ جانا تو سمجھ میں آتا ہے مگر
اس کی خاطر ماں باپ کی غیر موجودگی میں گھر سے فرار ہونا اور مذہب تبدیل کر
لینا پھر اپنے باپ جتنی عمر کے مرد سے نکاح پڑھوا لینا سب کچھ وقتی و
جذباتی ہے اس کا حقیقی شعور و سنجیدگی سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
رعنا تبسم پاشا
|