کسی بھی تیرہ برس کی عمر کے بچے کو تو خود اپنے مذہب کی
سمجھ نہیں ہوتی تو ایسے میں اسے کسی دوسرے مذہب کی سوجھ بوجھ ہونا ایک قطعی
ناممکن سی بات ہے ۔ ابھی ہم اس بات کو رہنے دیتے ہیں کہ یہ ہم مسلمانوں کو
ہندو اور عیسائی مذاہب کی نوخیز و نوجوان لڑکیوں کو ہی مشرف بہ اسلام کرنے
کا اتنا شوق کیوں ہوتا ہے؟ یہ اسی طرح سے ان کی عمر رسیدہ بیوہ مطلقہ
بےسہارا غربت زدہ عورتوں کو دائرہء اسلام اور اپنے نکاح میں داخل کر کے
ثواب کمانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اور انہیں معاشی و سماجی تحفظ فراہم کر
کے اپنی جنت پکی کیوں نہیں کرتے؟ ابھی ہم اس سوال کو بھی رہنے دیتے ہیں کہ
اگر اسی ہندو یا عیسائی برادری کا کوئی لڑکا ہماری لڑکی بھگا کر کسی مرد
مومن کے پاس پہنچے تو کیا اس سے اسلام قبول کروا کے لڑکی اس کے نکاح میں دے
دی جائے گی؟
کوئی غیر مسلم تیرہ برس کی بچی اگر گھر سے بھاگ کر اسلام قبول کرتی ہے اور
ایک چوالیس سالہ شخص سے نکاح پڑھوا لیتی ہے تو ان کے نزدیک کوئی ناسمجھی
نہیں کرتی وہ اپنی مرضی اور خوشی کی مالک ہے اور اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد
ہے ۔ تو پھر یہ معاشرہ جہاں عمومی طور پر ایک لڑکا جو لڑکی کے مقابلے میں
زیادہ اہم برتر اور عقلمند سمجھا جاتا ہے تو بالکل اسی طرح سے اگر کوئی
تیرہ برس کا مسلمان لڑکا اپنی غربت اور حالات کے ہاتھوں ہی سہی مجبور ہو کر
کسی چوالیس سالہ عیسائی عورت سے شادی کر لے اور خود بھی اسی کا مذہب اختیار
کر لے تو یہاں کتنے لوگ ہیں جو اس کی شخصی آزادی اور فیصلے کے اختیار کو
تسلیم کر لیں گے اور اس کی عقل و فہم پر سوال نہیں اٹھائیں گے؟ کیا اس معمر
عورت پر نوعمر لڑکے کو بہکانے اور ورغلانے کا الزام عائد نہیں کیا جائے گا؟
بلکہ اگر وہ خود مسلمان ہو کر لڑکے سے نکاح کر لے تو بھی اس کی جاں بخشی
نہیں ہو گی یہی لوگ اسے طعنے دے دے کر ہی مار دیں گے ۔ اور کم عمری و
نادانی ہی کی بناء پر کبھی جو لڑکے کی زبان بہک گئی تو کوئی بھی بےعمل کم
عقل دین کی دال سے بھی کوسوں دور مذہبی جنونی اپنے نام نہاد جوش ایمانی سے
مغلوب ہو کر اٹھے گا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا ۔ اور جاہلوں جذباتیوں
کا ٹولہ موقع پر ہی اسے غازی کے خطاب سے نوازے گا اور اپنا ہیرو بنا لے گا
۔
اندرون سندھ اور پنجاب سے بھی مسلسل غیر مسلم لڑکیوں کے اغواء جبری قبول
اسلام اور پھر شادی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں ۔ ان میں چند کیس معاشی و
سماجی وجوہات اور عشق و عاشقی کی بناء پر رضامندی پر بھی مبنی ہوتے ہیں ۔
دونوں ہی صورتوں میں سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کو اسلام
میں داخل کرنا بہت ثواب کا کام ہے تو نظر کرم صرف نوخیز و نوجوان خوبرو
لڑکیوں پر ہی کیوں ہوتی ہے؟ کس شریعت کے تحت انہیں اغواء کرنا یا گھر سے
فرار کرانے میں مدد و معاونت کرنا جائز ہو جاتا ہے؟ اس اقدام کی تائید و
پشت پناہی کرنے والے مومنین و صالحین اسی طرح سے غیر مسلم لڑکوں کو اغواء
اور اسلام قبول کروا کے اپنا شرف دامادی کیوں نہیں بخشتے؟ ہمارے مذہب میں
نا تو کم عمری کی شادی منع ہے اور نا ہی عمروں کے تفاوت پر کوئی عذر ہے مگر
یہ سب باہمی رضامندی اور ولی کی اجازت پھر اعلانیہ نکاح سے مشروط ہے ۔ یہ
جو فروغ اسلام کی آڑ میں اقلیتوں کے ساتھ غنڈہ گردی کا سلسلہ چل رہا ہے اس
پر سختی سے قابو پانے اور بہت مؤثر اور ٹھوس قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ
کمسن غیر مسلم بچیوں کی تبدیلیء مذہب اور جبری قبول اسلام جیسی مذموم روایت
کا خاتمہ ہو سکے ۔
(رعنا تبسم پاشا)
|