سر درد بنیں

حکیم لقمان کا قول ہے کہ جس صورتحال کو بدلنا آپ کے اختیارمیں نہیں اس کو آپ اپنادرد سر بھی نہ بنائیں۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو حکیم لقمان کا کہنا صحیح ہی ہے کیونکہ آج ہماری قوم کی یہی حالت ہوچکی ہے جو بار باراور ہزار بار لگاتار بیداری لانے کے تعلق سے مسجدوں میں خطبے دئےجانے کے باوجود ،اخباروں میں صحافیوں و دانشوروں کی جانب سے آواز اٹھانے کے باوجود بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ کسی تنظیم یا ادارے کا جائزہ لیں تو وہ اپنے آپ کو یہ کہتے ہیں کہ وہ اتحاد ملت قائم کرناچاہتے ہیں ، اختلافات کودورکرنا چاہتے ہیں۔لیکن شاید ہی ان تنظیموں و اداروں میں کوئی ایسا ہوگا جو دل سے اتحادملت کا علَم اٹھاتا ہو۔اتحاد ملت کے تعلق سے بھلے ہی مثبت نتائج سامنے نہ آئیں لیکن تنظیموں و اداروں کا بول بالا ضرور ہورہا ہے۔ہم بات کررہے تھے حکیم لقمان کے اُس قول کی جس میں انہوںنے یہ پیغام دیا ہے کہ کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ جائیں جو آپ کادرد سر بن جائے۔لیکن بحیثت مسلمان جب تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آئیگی کہ مسلمانوںنے ہمیشہ ہمت و شجاعت کے کارنامہ انجام دئے ہیں اور ان کارناموں کی وجہ سے ہی مسلمان اپنی تاریخ رقم کئے ہیں۔خالد بن ولید،طارخ ابن زیاد،محمد غوری،سلطان صلاح الدین ایوبی،قطب الدین ایبک،علاوالدین خلجی،ٹیپوسلطان،صدام حسین جیسے شہہ سوار و حکمران دنیامیں کامیابی کے پرچم بلند نہ کرتے،ان حکمرانوں کو معلوم تھا کہ نا امیدی کفر ہے اور ایک نا امید انسان مسلمان نہیں ہوسکتا۔دراصل اتنی لمبی فلاسفی کو اسلئے پیش کررہے ہیں تاکہ مسلمانوں میں بیداری آئے اور وہ اپنے حالات کو تبدیل کرنے کیلئے خود کھڑے ہوجائیں ۔پچھلے دنوں فرانس میں ایک نوجوان نے توہین رسالت کا مرتکب شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے بعد میڈیا میں مسلسل اسی بات پر بحث جاری ہے کہ مسلمان کتنے خطرناک ہیں کہ اس طرح کی دہشت گردی کی کارروائی کرتے ہوئے بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔فرانس میں ہونے والی موت کو ہم ہول سیل کا نام دے سکتے ہیں لیکن ریٹیل میں ہر دن ہزاروں مسلمان بلاوجہ جاں بحق ہورہے ہیں یا شہید ہورہے ہیں۔لیکن ان شہداءکی تصویریں نہ انگریزی میڈیامیں جاری ہوتے ہیں اور نہ ہی ہندی میڈیا میں۔آج فلسطین کا مسئلہ صرف جغرافیائی نظریہ رکھتا ہے، مسلمانوں کی ہلاکت کا مسئلہ انکے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آسام میں ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی اموات پر میڈیا کے کیمرے نہیں جاتے،انکے لئے نربھئیا جیسے واقعات نہایت سنجیدہ و درد ناک ہیں۔یہ بات درست ہے کہ ہماری قوم ایک جھٹکے میںجاگنے والی نہیں ہے اور انہیں جھنجوڑنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح جس طرح سے سوئے ہوئے اژدھے کو جگانے کیلئے کوششیں کی جاتی ہیں۔آج ہم اپنی مستیوں میں مست ہیں لیکن پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جو سازشیں رچی جارہی ہیں ،اس کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے ہمارے پاس کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے۔ مسلمانوں کے پاس عالیشان بنگلے ہیں،گاڑیاں ہیں اربوں کروڑوں روپیوں کا کاروبار ہے،رمضان کے آتے ہی ثواب کیلئے دینے کیلئے لاکھوں روپئے ہیں،عالیشان مسجدوں کی تعمیر کیلئے کروڑوں روپئے کے چندے دینے کیلئے راضی ہیں،دس پندرہ بچوں کے مدرسہ چلانے والے افراد کیلئے ہزاروں روپیوں کاچندہ ہے لیکن ان تمام معاملات پر اٹھنے پر سوالات کا جواب دینے کیلئے میڈیا نہیں ہے۔ہم یہ نہیںکہہ رہے ہیں مسلم میڈیا کا قیام صرف مجھ سے یا دو تین افراد سے ممکن ہے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم میڈیا کے قیام کیلئے پوری قوم کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔یہ میڈیا مسلم سماج کا نمائندہ بن سکتا ہے اور اس میں شمولیت مسلمانوں کی ہی ہوسکتی ہے جس میں سرمایہ مسلمان ہی لگاسکتے ہیں ،نفع و نقصان بھی مسلمان ہی پوچھ سکتے ہیں۔ ہندوستان کی چھوٹی چھوٹی قومیں اپنی ترجمانی کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے لیز کروڑوں روپیوں کا ٹی وی چینل بنا سکتے ہیں تو ہم مسلمان بیس کروڑ کی آبادی کے باوجود200 کروڑ روپئے اکٹھا کرنے میں ناکام ہیں۔آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ ہم اپنے دشمن کے خلاف آوازاٹھانے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں۔مسلمان تو مجاہد قوم ہے اور ا س کے رگوں میں جہاد کاجو ش وجذبہ ابلتا ہے۔لیکن یہاں جہاد بالقلم کرنے کی بات کی جارہی ہے تو کیونکر اتنے خوف و گھبراہٹ میں مبتلا ہیں؟۔اب سوچنے کا موقع نہیں ہے،کچھ کر گذرنے کا وقت ہے اور اس وقت کو غنیمت جانتے ہوئے مسلم میڈیا کے قیام کیلئے قدم بڑھانے ہونگے ۔ اور جو کام نہ ممکن ہے اسے ممکن بناکر دوسروں کیلئے دردسر بنیں۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174293 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.