''کڑی سے کڑی سزا دی جائے, قاتل کو نشانِ عبرت بنا
دیا جائے, کسی چوک چوراہے میں لٹکا دیا جائے'', اور کچھ کا جوش مرداں تو اس
بات سے کم ٹھنڈا ہی نہیں پڑتا کہ '' لاش کو چیل کووں اور کتوں کے سامنے
پھینک دیا جائے''۔ ہر بار جنسی درندگی کو روکنے کے حوالے سے عام لوگوں میں
بالعموم اور سوشل میڈیائی مجاھدین کے درمیان بالخصوص کچھ اس طرح کا بحث
مباحثہ جاری رہتا ہے۔ اور آخر میں ہمیشہ ایسے ہی جملوں کے ساتھ اپنے منطقی
انجام کو پہنچتا ہے۔
کیا ہم سرفروشان ملت نے آج تلک اس پہلو پر بھی کبھی غور کیا کہ ایک عام
انسان اور عام مسلمان کے گھر پیدا ہونے والا کوئی عام سا بچہ بڑا ہو کر
حیوان اور شیطان کیوں بن جاتا ہے؟ ہماری طرح کھاتا پیتا, اٹھتا بیٹھتا,
سوتا جاگتا اور ہمارے درمیان ہی عام سی زندگی گزارتا ایک عام سا انسانی جسم,
کب کیوں اور کیسے معصوم کلیوں کو بھنبھوڑنے والے خونخوار درندے کا روپ دھار
لیتا ہے؟
یقیناً گناہ کرنے والا مجرم تو کبھی نہیں بچ سکتا, یہ دنیا ہو یا وہ دنیا,
وہ کبھی نہ کبھی اپنے انجام کو پہنچ ہی جاتا ہے, وہ ننھی زینب کے قتل میں
پھانسی بھی چڑھ جاتا ہے, اور حالیہ کشمور واقعہ کی پاداش میں پولیس مقابلے
میں پار بھی کر دیا جاتا ہے۔ مزید تسکین طبع کے لیے آپ اسے سرعام کسی چوک
چوراہے میں بھی لٹکا دیں, اس کی لاش کھیتوں میں چیل کووں کے آگے پھینک کر
بھی دیکھ لیں, اسے دیوار میں چنوا دیں یا اس کے جسم کو کیل کلہاڑوں سے چھید
کر بھی دیکھ لیں۔ یہاں تک کہ 22 کروڑ لوگوں کے سامنے اسے کتوں اور جنگلی
درندوں کے سامنے پھینک کر بھی دیکھ لیں۔ یہ واقعات کبھی رکنے والے ہیں, اور
نہ کبھی رکیں گے, یہ غلیظ لاوا ایسے ہی بہتا رہے گا, اور ہر بار پہلے کی
نسبت شدت سے نکلے گا۔ اس وقت تک کہ جب تک ہم اصل مجرم کو نہ پہچان لیں, اصل
بیماری کی تشخیص نہ کر لیں, مرض کی حقیقی جڑ کو نہ پکڑ لیں, برے کی اس ماں
کو نہ مار لیں, جو ہر روز, ہرجگہ اور ہر علاقے میں ہر وقت قدم قدم پر ایسے
ناجائز بچوں کو جنم دے رہی ہے۔ جو ایک عام گھر کے, عام گلی محلے کے عام
انسان کو جنگلی, وحشی اور حیوان بنا رہی ہے۔
اور وہ ہے ہمارا کلچر, ہمارا ماحول, اجتماعی فضاء اور پھر جہالت, لاعلمی,
گنوار پن, بے راہ روی, بے شرمی, بے غیرتی, بے ہودگی, بے پردگی, اخلاق
باختگی, حیا سوزی, اولاد کی پرورش سے بے اعتنائی, نوجوان اولادوں کی طرف سے
غفلت, مادیت پرستی میں لتھڑی ہماری شان رتبہ اور مقام جسے ہم نے زندگی کا
اولین مقصد بنا لیا, اور زندگی کے اصل مقاصد کو بھول بیٹھے۔۔۔ کیا ہم میں
سے ہر ایک کے اردگرد آس پاس, گلی محلوں میں روزانہ اوباش, لوفر, لفنگے,
تھڑوں اور چوکوں چوراہوں پر بیٹھ کر اپنے موبائلوں میں پورن سائٹس کھولے
نہیں بیٹھے ہوتے؟ کیا کسی عام گھر میں موجود نوجوان بیٹا, بھائی, بھانجا,
بھتیجا تخلیے میں بیٹھا اپنے موبائل میں سر دیے امام کعبہ کی تلاوت سن رہا
ہوتا ہے؟ کیا رات گئے تک گھر سے غائب رہنے والے نوجوان بالغ لڑکے مساجد میں
بیٹھے عبادت کر رہے ہوتے ہیں؟ کیا شادیوں میں تاخیر کے سبب جنسی ہیجان,
شہوانیت کا طوفان اور نفسانی شعلوں کو بھڑکانے کا باعث نہیں بن رہا؟ اور
پھر اس وقت ایک ایسے دور میں جب کہ ہر قسم کی شرانگیزی, فتنہ سازی انسان کی
فنگر ٹپس پر موجود ہو۔۔۔
کیا پٹرول سے بھرے ڈرموں کے نزدیک جلتی دیا سلائی (ماچس کی تیلی) رکھ کر
خیر کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ کیا ہم دوکانوں پر بم بنانے کا سامان سجا کر
توقع رکھ سکتے ہیں کہ اس کا غلط اور منفی استعمال نہیں ہو گا؟
کیا ہمارے ہاں شراب, جوئے چرس گانجے کے کاروبار سرعام نہیں ہوتے, کیا یہ
نشہ آور اشیاء باپردہ اور نسبتاً آسان طریقے سے دستیاب نہیں؟ کیا کسی بھی
قسم کے نشہ کرنے والوں سے کسی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟
کیا ہمارا جوش, جنون اور اشتعال صرف اس وقت ہی چند دن کے لیے بھڑکتا ہے جب
کوئی زینب, ملائکہ یا علیشاء کسی درندے کے ہاتھوں بھنبھوڑ دی جاتی ہے؟ کیا
ہر ایسے واقعے کے چند دن تک شور و غوغے کے بعد, اگلے کسی واقعے تک خاموشی
کی چادر اوڑھے لیٹنے سے ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا روزانہ ہر
علاقے میں ایسے ہی معصوم کلیوں کو نہیں مسلا جاتا؟ کیا روزانہ والدین اپنی
عزت یا کسی ڈر, خوف کی وجہ سے ایسے واقعات کو دبا کر لہو کے گھونٹ پی کر
خاموش نہیں رہ جاتے کہ خاندان برادی یا سماج میں ان کی ناک کٹ جائے گی یا
وہ نشان عبرت بنا دیے جائیں گے؟ کیا روزانہ ایسے ہی بھنبھوڑی جانے والی
معصوم کلیوں کی ویڈیوز یا خبریں وائرل ہوتی ہیں؟ کیا روزانہ درجنوں مسلے
جانے والے پھولوں کی خبریں ہم تک پہنچتی ہیں, یا ہم ان پر ایسے ہی تڑپتے
اور بے تاب ہوتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔۔۔کیونکہ ہماری رگیں دو چار ماہ کے بعد
ہی ایسے کسی واقعے پر پھڑکتی ہیں, ورنہ روزانہ کی ایسی دل سوز کہانیوں سے
تو ہمارے گلی کوچے اور بام و در دھول مٹی کی طرح اٹے پڑے ہیں۔
مجرم ہم خود ہیں, ہمارا سماج ہے, معاشرہ ہے, عدالتیں ہیں اور سب سے بڑھ کر
حکومتیں ہیں کہ جو ایسے وسائل فراہم کر رہی ہیں۔ جو جہالت کو خود ختم نہیں
کرنا چاھتیں, کہ اگر یہ ختم ہو گئی تو ان کے آگے پیچھے دم ہلانے والے کہاں
سے آئیں گے, ان کو سامان عیش و نشاط فراہم کرنے والے کمی کمین کہاں سے ملیں
گے۔ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے بڑے بڑے نامی گرامی سانڈ, ان اجڈ اور گنواروں
کو چھتری فراہم کرتے ہیں, کیونکہ یہ مفت میں ان کے نعرے لگاتے ہیں, ان کے
سیاسی و کاروباری امور, کمیشن, بھتہ, ناجائز منافع, زمینی قبضے اور یہاں تک
کہ ان کی مالش گیری کے فرائض تک بھی سر انجام دیتے ہیں۔ فحاشی بھی یہ خود
ہی نہیں ختم کرنا چاھتے کہ کہیں اس سے ان کے آقا ناراض ہی نہ ہو جائیں۔ ان
سے اقتدار نہ چھین لیا جائے۔ یا بے راہ روی اور بے شرمی و بے غیرتی کو ختم
کرنے کی فضا یہ خود ہی نہیں پیدا ہونے دیتے کہ کل کلاں یہ بھی پکڑے جا سکتے
ہیں یا کسی شکنجے میں آ سکتے ہیں۔ یہ سب وڈیرے, چوھدری, راٹھ اور جاگیردار
ہی ان بالا ایوانوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ جہاں قانون اور ضابطے بنتے ہیں۔ جہاں
کیڑے مکوڑوں اور بھوکے ننگوں کی تقدیریں لکھی جاتی ہیں۔ ان کے ڈیرے,
حویلیاں اور سیاست کدے ہمیشہ رنگینیوں اور تھرکتے جسموں کے دم پر ہی تو
آباد ہوتے ہیں۔ ان کی آشیرباد پر ہی لچے لفنگے دندناتے پھرتے ہیں, یہی وہ
نرسریاں ہیں جن سے ایک عام گلی محلے کا کوئی عام انسان سفاک قاتل اور درندہ
بن کر نکلتا ہے۔ اور بلاشبہ ایسے مکتبوں سے نکلے ہوئے تلمیذ ہی جنسیت کے
طوفان کے باعث غلیظ اور بدبودار کردار بن کر سامنے آتے ہیں۔
ہم دھوکے میں ہیں, ہم ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں, ہم مذمتی بیانوں سے
بہلنے والی قوم ہیں۔ ہم دعووں اور وعدوں کے ایندھن پر چلنے والی وہ گاڑی
ہیں جس کی نہ کوئی منزل ہے اور نہ کوئی راستہ, ہم سمجھتے ہیں کہ قاتل وحشی
درندے کے جسم کو آرے سے چیر کر ہم اپنے اجتماعی وجود کے اس گندے پیپ زدہ
پھوڑے کو کاٹ پھینکیں گے۔۔۔لیکن افسوس کہ؛ ''ہم دھوکے میں ہیں''
|