کامیابی وکامرانی کیلئے" رستے" بنانے اور"رشتے "نبھانے
پڑتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے جس کی زندگی میں"لوگ "زیادہ ہوں اس کے دامن میں
"روگ" بھی زیادہ ہوتے ہیں لیکن اگر انسان میں "سوجھ بوجھ" ہوتوکوئی تعلق
"بوجھ" نہیں بنتا۔میں نے وہ لوگ بھی دیکھے ہیں جواپنے مفاد کیلئے اپنوں کی
پونجی تودرکنار زندگی تک چھین سکتے ہیں اورانہیں بھی جانتا ہوں جواپنوں کی
خوشی کیلئے اپنی زندگی تک داؤپرلگادیتے ہیں۔آج اس کالم میں آپ اس
منفرداورمعزز خاندان سے ملیں گے جو آپس میں" شریک "ہوتے ہوتے بھی ایک دوسرے
پرجان نچھاوراور"رشک "کرتے ہیں۔شہر گجرانوالہ کے نیک نام،ہردلعزیز
اورسراپااخلاص مرحوم حاجی "عنایت" اﷲ بٹ ؒ کے خاندان پراﷲ رب العزت کی بہت
برکات اورخاص" عنایات" ہیں۔انہیں ان کی انسانیت سے بے پایاں محبت،مخلوق کی
انتھک خدمت،سرخ وسپید رنگت، نفاست اورسخاوت کے سبب " شہزادہ صاحب" کہاجاتا
تھا،وہ انتہائی بارعب ،باذوق ، خوش خوراک اورخوش لباس تھے۔اِنکساری،وفاداری
،رواداری اوروضعداری حاجی صاحبؒ کی شخصیت کاطرہّ امتیازتھی۔وہ ایک سنجیدہ
،جہاندیدہ ،روایات اورتعلقات نبھانے والے انسان تھے۔حاجی صاحبؒ کو قابل رشک
زندگی ،ہونہار وفرمانبردار اولاد نصیب ہوئی۔حاجی عنایت اﷲؒ کاوصال اُس سال
کاسب سے بڑاواقعہ تھا،کوچوان سے سیاستدان اورحکمران تک ہرطبقہ انہیں
سپردخاک کرتے وقت وہاں موجوداور سوگوارتھا ۔حاجی صاحبؒ نے دنیا سے پردہ کیا
توایک اخبار نے کچھ یوں سرخی لگائی '' اباجی کاوصال ہوگیا'' ،ان کے بیٹوں
سمیت ان کے بے شمار عقیدتمند بھی انہیں عزت اورمحبت سے ''اباجی''کہاکرتے
تھے۔زور-آوروں اور زر-آوروں کے شہرمیں آج بھی ان کانام عقیدت واحترام سے
لیاجاتا ہے۔
ان کے باوفااورباصفا پسران پا جی محمد اعظم بٹ شہیدؒ ، معظم علی بٹ مرحوم
سابقہ چیئرمین ٹریڈرزایسوسی ایشن جیل روڈ لاہور ، گلزار احمد بٹ آفیسر
وفاقی محتسب اعلیٰ اور سابقہ سینئر سپر نٹنڈنٹ جیل خانہ جات پنجاب ،
منفرداسلوب کے سینئرکالم نگاراورلاہورہائیکورٹ کے ممتازقانون دان محمد آصف
عنایت بٹ، لاہور پولیس کے مستعدڈی ایس پی ذوالفقار علی بٹ اور سابقہ مسٹر
پاکستان محمد بابر علی بٹ کے افکاروکردار کی بدولت ان کے مرحوم والدحاجی
عنایت اﷲ ؒ کی میراث کاپرچم آج بھی سربلندہے۔ حاجی صاحبؒ ؒکے چھ صاحبزادوں
میں سے پاجی محمداعظم شہیدؒ کے سواباقی پانچوں شہر لاہورمنتقل ہوگئے
اورانہوں نے اس تاریخی شہرمیں مختلف محاذوں پر اپنی خدادادصلاحیتوں
کالوہامنوایا اوراپنااپنامنفردمقام بنایا۔ان بھائیوں کو اپنے اخلاص
اوراخلاق سے دوسروں کواپناگرویدہ بنانے کاہنر خوب آتا ہے۔ ڈی ایس پی
ذوالفقارعلی بٹ سے میری دوستی اس وقت ہوئی جب وہ عابدمارکیٹ لاہور سے ملحقہ
ایک تھانہ میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر تھے ۔زندہ ضمیر گلزار احمدبٹ سے کیمپ جیل
لاہور کے سپرنٹنڈنٹ آفس میں ہونیوالی خوشگوار ملاقات گہری دوستی میں بدل
گئی ۔ورلڈ کالمسٹ کلب کی شروعات میں ایک اجلاس کے دوران ممتازکالم نگار
محمدآصف عنایت بٹ ایڈووکیٹ سے ابتدائی تعارف ہوا جس کے بعد وہ ہمیشہ ایک
شفیق ومہربان بھائی کی طرح ملتے اورمجھے ورلڈکالمسٹ کلب کی آبیاری کیلئے
مفیدمشورے دیتے رہے ۔ان تینوں شخصیات سے الگ الگ دوستی کے بعد مجھے علم
ہواکہ یہ تینوں حقیقی بھائی ہیں،ان بھائیوں سے بے پایاں محبت اورعزت ملی
اورمیں بھی ان پرجان چھڑکتا ہوں۔
حاجی عنایت اﷲؒکے فرزندان گلزاراحمد بٹ ،محمدآصف عنایت بٹ، ذوالفقارعلی بٹ
اورمحمدبابرعلی بٹ اُس وقت اچانک دوسری باریتیم ہوگئے جب ان کے پاجی محمد
اعظم شہیدؒ نے حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران اپنے بھائی محمدبابر علی بٹ کے جواں
سا ل فرزندعظیم بٹ کی بیش قیمت جان بچاتے ہوئے خود جام شہادت نوش
کرلیا۔پاجی نے اپنی موجودگی میں آفیسرزکلب کے سوئمنگ پول کا دوسے تین
بارپانی تبدیل کروایااوراس کے بعد ایک روزاپنی بیوہ صاحبزدای کے معصوم یتیم
بچوں اور اپنے بھائی بابر بٹ کے ہونہار فرزندعظیم بٹ کواپنے ساتھ وہاں لے
گئے۔اس دوران نوجوان عظیم بٹ اچانک سوئمنگ پول میں اترگیا لیکن کچھ دیربعد
اس نے اپنے تایاجان کو مدد کیلئے پکارا ،پاجی محمداعظم ؒ نے اپناجواں سال
بھتیجا ڈوبتے ہوئے دیکھااورمدد کیلئے اس کی آوازسنی تواس کی جان بچانے
کیلئے بسم اﷲ الرحمن الرحیم، لاالہ الااﷲ محمدرسول اﷲ پڑھنے اوراﷲ تعالیٰ
کومددکیلئے پکارنے کے بعد بے دھڑک پول میں کودپڑے لیکن وہ عجلت میں
اپناتوازن کھوبیٹھے جس سے ان کی پشت پرگردن کے پاس چوٹ لگنے کے نتیجہ ان کی
سانس کی نالی میں پانی بھر گیا اور یوں ایک جان بچانے کی سعادت اور شہادت
ان کا مقدر بن گئی ۔دوسرو ں کی جان بچانے کیلئے اپنی زندگی داؤپرلگانااس
خاندان کاطرہّ امتیازاورسرمایہ افتخار ہے۔1999ء میں شہرلاہورمیں پاجی
محمداعظم شہید ؒ کا چھوٹا بھائی باوردی پولیس آفیسر ذوالفقارعلی بٹ بھی
بحیثیت ایس ایچ او تھانہ اکبری گیٹ دوران ڈیوٹی ایک معصوم بچے کی جان بچانے
کیلئے گندے نالے میں کودپڑا تھا۔فرض شناس ،وردی پوش اورسرفروش ذوالفقارعلی
بٹ نے اندرون شہرگندے نالے میں ایک بچے کوگرے ہوادیکھا جوڈوب اورمددکیلئے
پکار رہا تھا ،وہ فوری طور پر اس میں کودپڑے اوراسے بحفاظت باہرنکال لیا جس
پرانہیں محکمانہ ترقی اورانعام سے نوازاگیاتھا۔پاجی محمد اعظم شہیدؒ صرف
اپنے" نام" نہیں بلکہ اپنے ہر"کام "سے بھی اعظم یعنی بڑے اور بے مثل انسان
تھے۔ان کی بیٹھک میں بڑے بڑے زورآوراورقدآور لوگ بیٹھتے تھے،پاجی محمداعظم
شہید ؒ کے ایک بھی پنچائتی فیصلے کوآج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا۔انہوں نے
اپنی دانائی اوربڑائی سے کئی بیٹیوں کے گھر بربادہونے سے بچائے اوروہ آج
بھی اپنے اپنے شوہرکے ساتھ شادوآباد ہیں۔
پاجی محمداعظم شہید ؒ کے قلب کی طرح ان کادسترخوان بھی بہت کشادہ اوردوستی
یاری کاحلقہ کافی زرخیز تھا،وہ اپنے پیاروں اوردوسروں کی غلطیاں وزیادتیاں
فوری معاف کردیا کرتے تھے۔ان بھائیوں کو وسعت قلبی، دردمندی ،دانشمندی اور
بردباری اپنے نیک سیرت والدحاجی عنایت اﷲ ؒسے ورثہ میں ملی ۔پاجی محمداعظم
شہیدؒ کی شہادت کورونالاک ڈاؤن کے دوران ہوئی لیکن اس کے
باوجودپوراشہرنمازجنازہ میں امڈآیاتھا اورشہربھرمیں صف ماتم بچھ گئی تھی
۔شہرلاہور سمیت متعدد شہروں سے بھی مختلف طبقات کی نمائندہ شخصیات نے پاجی
محمداعظم شہیدؒ کی تجہیزوتدفین ،رسم قل اوررسم چہلم میں بھرپور شرکت کی
تھی۔تجہیزوتدفین اوراجتماعی دعا کے بعد عموماًشرکاء منتشر ہوجایاکرتے ہیں
لیکن اس روزلوگ واپس جانے کیلئے تیارنہیں تھے ،نمازجنازہ ایک سیاسی وسماجی
اجتماع کی صورت اختیار کر گئی تھی اوروہاں ہر کسی کی زبان پر پاجی محمداعظم
شہیدؒ کی بینظیر شخصیت، شجاعت ،جرأت،حمیت ،انسان دوستی،فیاضی
،سرفرازی،مہمان نوازی اوران کے عدل وانصاف کاکوئی نہ کوئی واقعہ تھا جووہ
انتہائی عقیدت کے ساتھ ایک دوسرے کوسنارہے تھے۔ حاجی عنایت اﷲؒ کا جب وصال
ہوا تواس کے بعد پاجی محمداعظم شہیدؒ نے ایک شفیق ومہربان والد کی طرح اپنے
بھائیوں کی پرورش کانہ صرف بیڑااٹھایا بلکہ اپنے کرداراورجذبہ ایثار سے ایک
باپ ہونے کاحق بھی اداکیا ۔پاجی محمداعظم شہیدؒ اپنے بھائیوں اوران کے
خاندانوں کیلئے ایک سیسہ پلائی دیوار اور شجرسایہ دار تھے۔وہ زندگی
بھراپنوں اوردوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیداکرتے رہے ۔ان بھائیوں کی ایک
دوسرے کے ساتھ معمولی جذباتی وابستگی نہیں بلکہ ان کی روٹس ایک دوسرے میں
پیوست اوران کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ، جہاں یہ بھائی ایک دوسرے کے ساتھ
والہانہ محبت کرتے ہیں وہاں انہوں نے ایک دوسرے کیلئے اپنے صادق جذبوں کا
اظہار کرتے ہوئے کبھی بخل سے کام نہیں لیا ۔ پاجی محمداعظم شہیدؒ کے بلندی
درجات کیلئے ایک خصوصی دعائیہ تقریب میں گلزاراحمدبٹ نے جس والہانہ جذباتی
انداز کے ساتھ ان کیلئے اپنی محبت وعقیدت کااظہار کرتے ہوئے اپنے شہید
بھائی کے بچوں کوجوپیغام دیا وہ سن کروہاں موجود ہرانسان کی آنکھوں
کابندٹوٹ گیا ۔ہم سنتے آئے ہیں جوہمیشہ کیلئے بچھڑجاتے ہیں ان کاایک دن صبر
آجاتا ہے لیکن کچھ شخصیات کاشماران میں ہوتا ہے جواپنے پیچھے خلاء چھوڑجاتی
ہیں جوکبھی پرُنہیں ہوتا۔
پاجی محمداعظم شہیدؒ کا"نام" ان کے فلاحی اوراصلاحی" کام" کی بدولت ہمیشہ
زندہ رہے گا ۔لوگ ان کے" انصاف" اور"اوصاف "کوہمیشہ یادرکھیں گے۔پاجی
محمداعظم شہیدؒ نے اپنی زندگی میں اپنے ہاتھوں سے جو"اچھائی" اور"بھلائی
"کے ہزاروں شجر لگائے ہیں قومی امید ہے ان کے جانثار بھائی ا نہیں مرجھانے
نہیں دیں گے بلکہ انہیں تناورپیڑ بنانے کیلئے کوئی کسرنہیں چھوڑ یں گے۔پاجی
محمداعظم شہید ؒ نے اپنوں اوردوسروں کیلئے جوبھی کیا وہ صلہ رحمی کے تحت
کیا ،ان کی ذات سودوزیاں سے بے نیاز تھی ۔ان کادل بہت صاف اورشفاف تھا ،کسی
کے ساتھ عداوت ان کی عادت اورفطرت نہیں تھی ۔وہ انتہائی اخلاص کے ساتھ
عبادت کی طرح کمزوروں اورناداروں کی مدد اور خدمت کیا کرتے تھے۔پاجی
محمداعظم شہید ؒ کے سیاسی شعور،ان کی دوریشی ،دوراندیشی اور فہم وفراست کی
شہادت پورا شہردیتا ہے۔پاجی محمداعظم ؒ کی شہادت کے بعدان کی بیٹھک میں وہ
بظاہرنہیں ہوں گے لیکن یہ پھر بھی آبادرہے گی اورآئندہ بھی وہاں انصاف کی
فراوانی اور فراہمی کامشن جاری رہے گا۔اعظم نام رکھنا کافی نہیں بلکہ پاجی
کی طرح اپنے افکاروکردار سے" اعظم" بن جانا اہم ہے،حقیقت میں بڑا یعنی اعظم
وہ ہے جوپاجی محمد اعظم شہید ؒ کی طرح کسی کوچھوٹایاحقیر نہ سمجھتا ہو۔
پاجی محمداعظمؒ شہید کی شخصیت پریہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے۔
ہم کواچھا نہیں لگتاکوئی بھی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سا ہوتوپھر نام بھی تجھ سا رکھے
|