ہندو پاک کی سرحدوں پر موجودمکین آخر کب چین و سکون کی زندگی گزار پائینگے

آخر کب تک ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہینگے اور کب تک ان دونوں ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ رہینگے؟دونوں ملکوں کی سرحدوں پر رہنے والے ان مظلوم اور بے بس لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس اور دہشت کا ماحول کیا کبھی ختم بھی ہوپائے گا؟ کیا انہیں چین و سکون کی زندگی نصیب بھی ہوگی؟ یہ چند ایسے سوالات ہیں جو ظلم و استبداد اور بربریت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کیلئے لمحہ فکرہے۔ دونوں ملکوں کی افواج اور سکیوریٹی ادارے تو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے اپنی قربانی دینے بھی تیار رہتے ہیں، ان اہلکاروں کی زندگیاں بھی اپنے ملک کی حفاظت کے جذبات سے لبریز ہوتی ہیں اور وہ پڑوسی ملک کے کسی بھی شخص کو شک کی بنیاد پر اپنا دشمن سمجھتے ہوئے ان پر حملہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور مدّمقابل کے اہلکار بھی اسی قسم کی کارروائیاں کرتے ہوئے یا تو اپنی جان قربان کردیتے ہیں یا نہیں توپھر زخمی ہوجاتے ہیں یا پھر قسمت اچھی رہی تو بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان کارروائیوں کے بعد ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ سرحد ی علاقوں کے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی گئی اور دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دی جارہی تھی لہذا ہم نے دشمن پر حملہ کردیا اور جوابی کارروائی کرنے والے بھی کچھ اسی طرح کا الزام ان پر کئے دیتے ہیں۔ اس طرح سرحدی علاقوں میں ہمیشہ کشیدگی کا ماحول بنا رہتاہے اور ان دونوں افواج و سیکوریٹی فورسز کے درمیان سرحد پر بسنے والے ان معصوم و بے قصور افراد ان کی بے رحمانہ کارروائیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس طرح یہ بے قصورمردو خواتین ضعیف و ناتواں ، نوجوان و بچے سب ہی سرحدی علاقوں میں زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑے نظرآتے ہیں۔نہ انکی جان کی سلامتی ہوتی ہے اور نہ مال واملاک کی۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کو کیا چاہیے انہیں نہ فوج اور سکیوریٹی اداروں جانبازوں کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ سرحدوں پر موجود ان معصوم و بے بس و بے قصور انسانوں کی فکر۰۰۰ انہیں اپنی کرسی بچانے کی فکر رہتی ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ سرحد پر امن و سکون قائم رہے۰۰۰ دونوں ممالک کی جانب سے وقتی طور پر ہائی کمیشن کے عہدیدار کو وزارتِ خارجہ طلب کیا جاتا ہے اور پھر احتجاجی بیان درج کروایا جاتا ہے اورپھر میڈیا پر بیان بازی ہوتی ہیکہ بے قصور شہریوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا گیا اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسکے خلاف مذمتی بیان جاری ہوتاہے۔

بعض ظالم حکمرانوں کو ایک نیا ظالم طبقہ بھی ہاتھ آگیا ہے وہ اپنے ملک سے ایسی وفاداری دکھانا چاہتے ہیں کہ سامنے والے مظلوم کو بھی وہ ظالم کے طور پر پیش کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اصلیت کا سب کچھ علم ہونے کے باوجود بھی اپنی من مانی اور جھوٹی خبروں کی ترسیل کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں اور پھر صحافت کی عظمت و وقار کو اپنے پیروں تلے روندے چلے جاتے ہیں۔ کاش صحافتی اقدار کا لحاظ رکھتے ہوئے، حق و باطل میں امتیاز کرتے ہوئے مظلوم و بے بس انسانیت کا ساتھ دیتے۔خاص طور پر ملک میں عام انتخابات ہوں یا ملک کی کسی ریاست کے انتخابات ہوں ان حالات میں دیکھا جاسکتا ہیکہ سرحدی علاقوں میں کشیدہ ماحول بنا رہتا ہے اور پھر انتخابی دور کے خاتمہ کے بعد حالات بتدریج بہتر نظر آتے ہیں۔ دونوں ممالک کے بعض میڈیا چیانلس جس طرح کا گھناؤنا پروپگنڈہ کرکے سنجیدہ اور پرسکون عوام کے ذہنوں کو پراکندہ کرتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں پڑوسی ملک کے خلاف زہر بھرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے ملک میں موجود اکثریت اور اقلیت کے درمیان بھی ماحول کشیدہ ہوجاتا ہے اور اسی کا فائدہ حکمراں اٹھانا چاہتے ہیں ۰۰۰

گذشتہ دنوں پاکستانی افواج کے میجر جنرل بابر افتخار ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان پر الزام لگایا کہ ہندوستان دہشت گردوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کررہا ہے اور کالعدم تنظیموں کا کنسورشیم بنارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کا مزید کہنا ہیکہ افغانستان میں ہندوستانی سفارتحانے اور قونصل خانے پاکستان مخالف سرگرمیوں کا گڑھ بن چکے ہیں، اور کہا جارہا ہے کہ ہندوستانی سفارتخانے میں تعینات ہندوستانی کرنل راجیش دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ چار مرتبہ دہشت گردوں سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہیکہ نومبر اور دسمبر میں کراچی، لاہوراور پشاور میں دہشت گردی کے بڑے واقعات کا خطرہ ہے،اسی طرح ہندوستانی خفیہ ایجنسی پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ حال ہی میں تیس داعش دہشت گردوں کو پاکستان اور اردگرد منتقل کیا ہے او رکالعدم تنظیموں میں اربوں روپیے تقسیم کئے جارہے ہیں۔ اس طرح جب اتنی ساری معلومات اکھٹی کی گئی تو پھرسوال پیدا ہوتا ہیکہ ان پر پاکستانی خفیہ ادارے قابو کیوں نہیں پاتے؟ اگر واقعی انکی یہ رپورٹس صداقت پر مبنی ہے تو پھر ان واقعات کی انجام دہی سے قبل ہی اسے ناکام بنانا چاہیے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستان نے پاکستانی ہائی کمیشن کو وزارتِ خارجہ طلب کرکے بتایاکہ پاکستان نے گذشتہ دنوں جموں و کشمیر میں تشدد کو ہوا دینے کیلئے خط قبضہ سے متصل کئی سیکٹرس پر فائرنگ کی جس کے جواب میں ہندوستان نے بھی کارروائی کی۔ ہندوستانی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان ، پاکستانی فورسز کی جانب سے بے قصور شہریوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان امن کو متاثر کرنے اور جموں و کشمیر میں تشدد کو ہوا دینے کیلئے خط قبضہ سے متصل علاقوں میں فائرنگ ایسے موقع پر کی جب ملک میں تہوار منایا جارہا تھا۔ دونوں ملکوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں عام شہری اور فوجی اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔ اب ان کارروائیوں کے بعد پھر وہی بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے ۔ کاش ہندوستان اور پاکستان کے حکمراں سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل ترتیب دیتے اور دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں بسنے والے بے قصور عوام کی سلامتی اور حفاظت کے لئے مؤثر حکمت عملی بناتے ۔ جس سے دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار ماحول بھی بنا رہتا اور دونوں ملکوں کی معیشتوں میں بہتری اور ترقی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔ مظلوم کشمیری عوام چاہے وہ ہندوستانی کشمیر سے تعلق رکھتے ہوں یا مقبوضہ پاکستانی کشمیر سے ، انکا جانی ومالی نقصان ہوا ہے اس کی پابجائی کون کرے گا ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ان مظلوم افراد کا کہنا ہیکہ وہ اپنے نئے مکانوں میں ابھی منتقل ہوئے چند روز ہی ہوا تھا کہ سب کچھ جل کر خاکستر ہوگیا اور لاکھوں کی املاک تباہ و برباد ہوگئی اور انکے عزیز و اقارب بھی زخمی یا ہلاک ہوچکے ہیں ۔ ہم ہندوستانی ہونے کے ناطے اپنے ملک کی سلامتی و خوشحالی اور حفاظت کے لئے فوج اور سیکیوریٹی کی خدمات کو سراہاتے ہیں اور انکی قربانیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان سے تعزیت کرتے ہیں لیکن ساتھ میں یہ بھی چاہتے ہیں دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کریں اور دہشت گردوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے دونوں ممالک کی فوج اور سیکیوریٹی فورسز مل جل کر کارروائیاں کریں تاکہ دونوں ممالک کے عوام چین و سکون کی زندگی گزار سکیں ۔ کاش ایسا ہوتا ؟اس کے لئے ہر شہری کو اپنی ذمہ داری کا حق ادا کرنا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب دونوں ممالک کے میڈیا چیانلس اور سوشل میڈیا پر حکومتیں پابندی عائد کریں کہ وہ بے تکی اور غلط اور جھوٹی خبریں دینے سے گریز کریں ورنہ انکے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

پڑوسی ملک پاکستان کی طرح ہمارے ملک میں بھی بعض میڈیا چینلس اور سوشل میڈیا کی جانب سے بے تکی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اصل حالات سے کوسوں دور رہتے ہوئے اپنی برتری بتانے کیلئے جھوٹے دعوے کئے جاتے ہیں ، بے شک ہماری فوجی طاقت و صلاحیت سے کسی قسم کا انکار نہیں۔ہماری فوجی طاقت اور صلاحیت بہترین ہے اور ہماری فوج عصری ہتھیاروں سے آراستہ ہے۔ اچھا یا غلط تاثر دینے کے لے بعض میڈیا کی جانب سے بھڑکائے جانے والے الزامات اور جھوٹی کارروائیوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، دونوں ممالک میں وقتی طور پر بعض لوگ جھوٹی خبریں سن کر خوش ہوتے ہیں لیکن فوج و سیکیوریٹی فورسز کی اگر ناکامی ہوتی ہے تو یہ ملک کے ہر فرد کیلئے ناکامی ہوگی چاہے وہ کسی بھی ملک و مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ اور کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ اسکے ملک کی فوج ناکام ہوگئی ہو۰۰۰

وزیراعظم عمران خان کا دورہ افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان جمعرات کو ایک روزہ دورہ پر افغانستان پہنچے جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور دونوں قائدین نے اس موقع پر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر عمران خاں نے اپنے دورے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد بحال کرنا، باہمی روابط بڑھانااور یہ یقین دلانا ہے کہ پاکستان آپ کی توقعات سے بڑھ کر مدد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کیلئے مثبت کردار ادا کیاہے ، اور مستقبل میں بھی جو کچھ ممکن ہوسکتا ہے کرتا رہے گا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ گذشتہ پچاس سال سے کابل کا دورہ کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا انکے لئے ممکن نہ ہوسکا، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان ترقی کیلئے تعاون ناگزیر ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی کابل آمد پرانکا استقبال کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا کہ وہ ان کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے یہاں آئے ہیں۔صدر افغان اشرف غنی نے کہا کہ دونوں ممالک میں اسلامی آئین مشترک ہے اور روایات کا رشتہ بھی ہے۔ افغان صدر نے کہا کہ امن بہت ضروری ہے ، تشدد کوئی جواب نہیں، انکا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ ان کے درمیان خوشگوار تعلقات اور معاشی سرگرمیاں قائم رہیں۔ اب دیکھنا ہیکہ پاکستانی اور افغانستان کے درمیان خوشگوار تعلقات کیا واقعی برقرار رہینگے یا پھر وہی پرانی روش اپناتے ہوئے دہشت گردانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہیگا۔ ماضی میں پاکستان اور افغانستان میں طالبان نے جس طرح دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیں ہے یہ اگر واقعی ماضی کا ایک باب بن جائے تو بہتر ہوگا ورنہ مستقبل میں بھی اگر طالبان کی جانب سے اس قسم کے خطرناک دہشت گردانہ کارروائیاں افغانستان میں جاری رہینگے تو یہ اس ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لئے سب بڑی رکاوٹ ہوگی۔ فی الحال پاکستانی حکومت نے ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں پر قابو پایا ہوا ہے اور یہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے معاون ثابت ہونگے۰۰۰

گلگت بلتستان میں انتخابات کے بعد
گلگت بلتستان کے انتخابات میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہ ہوسکی۔ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کو24میں سے 10نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی تین ، پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دو نشستوں پر مجلس وحدت مسلمین نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی۔ جبکہ سات آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی جو حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بلتستان کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی فتح وزیر اعظم عمران خان کی قیادت پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے اور گلگت بلتستان نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی نفرت انگیز سیاست ، کھوکھلے نعروں کو مسترد کردیا ہے اور انہوں نے ماضی میں قومی خزانے کو لوٹا تھا اس لئے عوام نے انتخابات میں ان بدعنوان رہنماؤں کو مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو بھی کرپٹ بتاتے ہوئے کہاکہ انکے پاس پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے اسی لئے عوام نے انہیں بھی مسترد کردیا۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں دھاندلی ہونے کی بات کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اس کی مذمت کی ہے اور دونوں رہنماؤں نے بہت جلد اس معاملے پر ملاقات کرنے سے اتفاق کیا ہے ۔ ڈاکٹر شہباز گل نے اپوزیشن جماعتوں پر زوردیا کہ وہ انتخابی شکست کو قبول نہ کرنے کی بُری روایت سے باز آجائیں اور اگر انہیں انتخابی نتائج سے کوئی اعتراض ہے تو وہ اسے ثابت کریں۔ انہو ں نے گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی فتح پر کہا کہ یہ کامیابی وزیر اعظم عمران کی قیادت پر عوام کے اعتماد کا مظہر ہے کیونکہ بلتستان میں سب سے مقبول رہنماکے طور پر عمران خان ابھرے ہیں۔اب دیکھنا ہیکہ پاکستان تحریک انصاف آزاد امیدواروں کی تائید سے گلگت بلتستان میں کس طرح حکومت بناتی ہے اور یہاں کی ترقی کے لئے عمران خان عوام سے کئے گئے وعدوں پر کس طرح اترتے ہیں۔ گلگت بلتستان پاکستان کا ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر ہندوستان کا دعویٰ ہے اس نے الیکشن پر احتجاج کیا ہے۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209677 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.