پاکستان میں خواتین کی ڈلیوری کے دوران سی سیکشن کی شرح میں اضافہ، یورپ اور پاکستان میں خواتین کی ڈلیوری میں بنیادی طور پر کیا فرق ہوتا ہے؟ جانیں

image
 
دنیا بھر میں بچے کی پیدائش کے لیے بنیادی طور پر دو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ایک طریقہ تو نارمل ڈلیوری کا ہوتا ہے جس کے ذریعے بچے کی ولادت عمل میں آتی ہے اور یہ طریقہ سے سے قدیم رائج طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ سی سیکشن کہلاتا ہے جس میں آپریشن کے ذریعے بچے کی ولادت کی جاتی ہے- یہ طریقہ میڈیکل سائنس کی ترقی کے بعد اس صورت میں رائج ہوا جبکہ زچہ یا بچہ میں سے کسی کی جان کو نارمل ولادت کی صورت میں خطرہ لاحق ہو تو اختیار کیا جاتا ہے میڈیکل سائنس کے مطابق ڈلیوری کے لیے بہترین طریقہ نارمل ڈلیوری ہی ہے- مگر حالیہ دنوں میں پاکستان میں سی سیکشن کے ذریعے ڈلیوری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں- ہمارے ملک میں یورپی طریقہ علاج کو سب سے زیادہ مستند قرار دیا جاتا ہے جدید تحقیقات کے مطابق پاکستان اور یورپ کے اندر طریقہ ولادت میں کیا فرق موجود ہیں آج ہم آپ کو اس کے حوالے سے بتائيں گے-
 
پاکستان اور یورپ میں ڈلیوری کے بنیادی فرق
1: الٹرا ساؤنڈ
آج کل حمل کے بعد بچے کی حالت کے بارے میں جاننے کے لیے الٹرا ساونڈ کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں الٹراوائلٹ شعاعوں کی مدد سے ماں کے رحم کی تصویر لی جاتی ہے اور بچے کی حالت کے بارے میں جانا جاتا ہے- پاکستان میں عام طور پر گائناکالوجسٹ حمل ٹہرنے کے قوراً بعد اس کی تصدیق کے لیے الٹرا ساؤنڈ کرواتی ہیں اور پھر یہ سلسلہ پہلے مہینے سے لے کر ڈلیوری تک ہر مہینے جاری رہتا ہے جب کہ یورپ میں پہلا الٹرا ساؤنڈ چوتھے مہینے کروایا جاتا ہے- ان کا یہ ماننا ہے کہ الٹرا ساؤنڈ سے نکلنے والی شعاعیں بچے کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہیں اور مختلف قسم کی معذوری کا باعث بھی بن سکتی ہیں اس لیے کوشش کی جاتی ہے کہ یہ عمل کم سے کم کیا جائے-
 
2: بچے کی جنس
پاکستان میں عام طور پر بچے کی جنس کے متعلق بتانے سے احتیاط برتی جاتی ہے جب کہ بہت سارے الٹراساؤنڈ سینٹر میں یہ واضح طور پر لکھا ہوتا ہے کہ بچے کی جنس کے متعلق نہ پوچھا جائے- اس اقدام کا مقصد ان لوگوں کے اس اقدام کی حوصلہ شکنی مقصود ہے جو کہ یہ جاننے کے بعد کہ پیدا ہونے والی لڑکی ہے اس کا ابارشن کروا لیا جاتا ہے جب کہ یورپ میں چوتھے مہینے الٹرا ساؤنڈ کے وقت ہی ماں کو بچے کی جنس کے متعلق بتا دیا جاتا ہے-
 
image
 
3: ادویات سے پرہیز
پاکستان میں جس وقت کسی بھی عورت کو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ امید سے ہے اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر اس کو ایک بڑا سا نسخہ تھما دیتا ہے جو کہ مختلف ملٹی وٹامن اور طاقت کی ادویات پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ کھانا لازمی قرار دیا جاتا ہے اور نہ کھانے کی صورت میں بچے اور ماں کی جان کو خطرے میں قرار دیا جاتا ہے- جبکہ اس حوالے سے یورپ کا نقطہ نظر کافی مختلف ہے وہاں ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ حاملہ ماں صحت مند طرز زندگی کو اپنائے اور اچھی غذا کا استعمال کرے اور دواؤں سے پرہیز کرے کیوں کہ دواؤں کے سائڈ افیکٹ بچے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں-
 
4: ڈلیوری کے وقت شوہر کی موجودگی
پاکستان کے اندر ڈلیوری کے وقت گھر یا خاندان کے کسی بھی فرد کو لیبر روم میں حاملہ ماں کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور بچے کی پیدائش کا سارا عمل اس نے اکیلے ہی برداشت کرنا ہوتا ہے- اس کے لیے ڈاکٹرز کا یہ نقطہ نظر ہے کہ دوسرے لوگوں کی موجودگی ان کے ارتکاز اور کام میں دشواری کا باعث بن سکتی ہے جب کہ یورپ میں ڈلیوری کے عمل کے پورے وقت میں شوہر کی موجودگی لازم ہوتی ہے یہاں تک کہ بچے کی اوول نال بھی شوہر کے ہاتھ سے کٹوائی جاتی ہے اور اس کے بعد بچے کو فوری طور پر ماں کی آغوش میں دیا جاتا ہے تاکہ بچہ کے جسم کا درجہ حرارت ماں کے جسم کے ساتھ اس کے لمس کے سبب نارمل ہو سکے-
 
image
 
5: اخراجات
یورپ میں بچے کی پیدائش کی مکمل ذمہ داری حکومت کے ذمے ہوتی ہے بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی ڈلیوری تک کے تمام اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے بلکہ بچے کی پیدائش کے بعد والدین کو اس کی غذا اور دیگر ضروریات کے حوالے سے فنڈ بھی دیا جاتا ہے- جبکہ پاکستان میں یہ اخراجات ہر فرد خود ہی ادا کرتا ہے اور ڈاکٹر اپنے بل میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لیے نارمل ڈلیوری کے بجائے سی سیکشن کرنے کو فوقیت دیتے ہیں کیوں کہ ایک جانب تو اس سے ان کا بل اچھا بنتا ہے دوسرا وہ اپنی سہولت کے اعتبار سے آپریشن کر سکتے ہیں اور کم وقت میں زيادہ پیسے کما سکتے ہیں-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: