بس ماں نظروں سے دور نہ ہو ۔۔۔ بچوں کا ماں سے حد سے زیادہ لگاؤ اور دور جانے کا خوف، مائیں اس مسئلے سے کیسے نمٹیں؟

image
 
اکثر مائیں اس وجہ سے پریشان ہوتی ہیں کہ ان کے بچے ان سے حد سے زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان کی پریشانی اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ بچے انہیں کسی حال میں چھوڑنا نہیں چاہتے، وہ باتھ روم بھی جاتی ہیں تو بچے اس وقت بھی انہیں چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ جیسے ہی ماں ان کی نظروں سے دور ہوتی ہیں تو بچے خوفزدہ ہوجاتے ہیں، رونے لگتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بچے ہر وقت ماں کے ساتھ چپکے رہنے کی ضد کریں گے تو وہ زندگی میں خود کیسے آگے بڑھیں گے؟ کیونکہ انہیں اسکول جانا ہوتا ہے، وہ ماں کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے تو اسکول کیسے جائیں گے، باقی کاموں اور ٹاسک کو وہ اکیلے ہی پورا کرنے کی کوشش کیسے کریں گے؟ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو زندگی میں کامیاب کیسے ہوں گے؟
 
ان سوالات کا جواب ماؤں کو یقیناً حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ اگر بچوں کی اس عادت کو صحیح وقت میں ختم کرنی کوشش نہ کی گئی تو ایک وقت میں یہ نفسیاتی عادت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ اس حوالے سے مصر کے مشہور ڈاکٹر مگدا صالح، جوک ہ کنڈر گارٹن کالج کے ایجوکیشن ایکسپرٹ مانے جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ مشکل اس وقت شروع ہوتی ہے جب مائیں بڑھتے ہوئے بچوں سے کو خود سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور بچے انہیں اپنی نظروں سے دور نہیں رکھنا چاہتے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نرسری تک پہنچنے کے بعد بچوں کو آہستہ آہستہ خود سے الگ سلانے کی کوشش کرنی چاہئے، انہیں بتانا چاہئے کہ بہادر بچے ڈرتے نہیں ہیں، انہیں بہادروں کی کہانیاں سنائیں اور کہیں کہ وہ بھی اگر اکیلے رہیں گے یا سوئیں گے تو وہ بھی سپر ہیرو بن جائیں گے۔ اس طرح کی مثالوں سے ان کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوجائے گا۔ ایسے وقت میں ماؤں کو غور کرنا چاہئے کہ بچے ا ن سے کس حد تک لگاؤ رکھتے ہیں، کیا وہ اب بھی ان سے دور رہنے پر تیار نہیں ہو رہے؟
 
ڈاکٹر مگدا کا کہناتھا کہ یہ بات حقیقت ہے کہ بچے قدرتی طور پرماں سے قریب ہوتے ہیں ، کیونکہ ماں قریب ہوتی ہیں، تو وہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ ماں سے حد سے زیادہ لگاؤ ہوجائے تو پھر بچے باہر کے لوگوں سے ملنا نہیں چاہتے، وہ بس ماں کے قریب رہتے ہیں، اس لئے وہ باہر کے لوگوں سے ملتے جلتے نہیں ہیں،ان کے دوست نہیں بن پاتے۔ وہ نا ہی کسی سے کھیلتے ہیں اور ناہی بات کرنا چاہتے ہیں، بس ماں کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہیں یا ان کے ہاتھوں کو تھامے رکھتے ہیں۔  جو بچے ماں سے حد سے لگاؤ رکھتے ہیں، وہ اپنے باپ سے بھی قریب نہیں ہو پاتے۔
 
image
 
حد سے زیادہ لگاؤ کا کیسے پتا چلے؟
جب بچے ماں کے دور جانے کے بعد حد سے زیادہ رونے لگ جائیں ۔ وہ ماں کو ڈھونڈنے نکل پڑے اور کسی کے پاس بھی ٹہرنے یا رُکنے کیلئے تیار نہ ہوں۔ جب بچے خود سے کوئی کام نہ کریں اور ماں سے اپنا ہر کام کرواتے ہوں۔ وہ چاہتے ہوں کہ ماں ہی ان کے سب کام کریں اور انہیں سب چیزیں دیں۔ وہ اچانک خوفزدہ ہوجائیں اور ڈرنے لگیں کہ ان کی ماں انہیں چھوڑ کر کہیں چلی نہ جائیں ۔ وہ اکیلے سونے کیلئے تیار نہ ہورہے ہوں۔ رات کو اٹھ کر آپ کو دیکھتے ہوں اور پھر سوجاتے ہوں۔ وہ باہر جاتے وقت یا کسی بھی تقریب میں آپ کا ہاتھ نہ چھوڑتے ہوں، آپ کے کندھے پر سر رکھ دیتے ہوں یا آپ کی ٹانگوں سے مستقل لپٹ کر رہتے ہوں۔ بچے آپ کو سوشل ایکٹیویٹیز کا حصہ نہ بننے دیں، کسی اور سے ملنے جلنے نہ دیں۔
 
عادت کیسے ختم کریں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ زندگی کے مختلف مراحل کے دوران ماؤں کو مختلف عادات کو اپناتے رہنا چاہئے ۔ انہیں بچوں کو خود سے جسمانی طور پر آہستہ آہستہ دور رکھنے کی عادت ابتدا سے ہی پروان چڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے، انہیں کھیلنے کیلئے سامان دے کر ایک جگہ بٹھا دینا چاہئے ۔ انہیں مختلف سرگرمیوں میں 6 ماہ کے بعد سے ہی مصروف رکھنا چاہئے تاکہ انہیں اپنی ماں کی گود میں یا ان کے ساتھ رہنے کی عادت نہ ہو۔
 
جب بچے بڑے اور سمجھدار ہونے لگیں تو انہیں الگ کمرے میں سلانے کی عادت ڈالیں۔
 
image
 
بچوں کو سمجھائیں کہ پرائیوسی بھی ایک چیز ہوتی ہے، ہر وقت ماں کے سر پر سوار نہیں رہنا چاہئے، ورنہ ان کے کچھ کام رک سکتے ہیں۔ انہیں سمجھائیں کہ پرائیوسی کی سب کو ضرورت ہوتی ہے، ایسے وقت میں ہمیں دوسروں کی پرائیوسی کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ چاہے وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
 
جب بچے 24 ماہ کے ہوجائیں تو انہیں گھر والوں کے پاس اکیلے چھوڑ کر باہر کچھ گھنٹوں کیلئے جانا شروع کردیں۔ انہیں ان کے والد کے پاس چھوڑ کر کام کیا کریں ، تاکہ انہیں آ پ سے دوررہنے کی عادت ہوسکے۔
 
24 ماہ کے بعد سے انہیں مختلف کھیلوں میں لگا دیں ۔ جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوں تو انہیں گھر کے دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنے کی عادت ڈال دیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: