آپ کے دستخط آپ کی پہچان ہیں۔ آپ کی عدم موجودگی میں کسی
دستاویز پر آپ کے دستخط اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ تحریر، یہ چیک یا
یہ دستاویز آپ سے متعلق ہے۔ یعنی جہاں آپ خود موجود نہ ہوں، آپ کی تصویر
بھی آویزاں نہ ہو تو وہاں آپ کے دستخط آپ کی پہچان ہوتے ہیں۔
اب آپ فیصلہ کیجیئے کہ آپ کی پہچان کیا ہونی چاہیے۔ کیا آپ خود کو قومی
زبان سے غیر متعلق ثابت کرنا چاہیے گئے۔ کیا آپ قومی زبان کو اپاہج ثابت
کرنا چاہیں کہ آپ کی زبان آپ کے دستخط تراشنے سے عاری ہے یا آپ یہ ثابت
کرنا چاہیں گے کہ مجھے اپنی زبان سے کوئی رغبت نہیں بلکہ میں انگریزی کو
ترجیح دیتا ہوں۔
آج ہمارے ہاں ناخواندہ خواتین وحضرات بھی انگریزی کے حروف کوٹیڑھا ترچھا
کرکے دستخط کشیید کرلیتے ہیں۔ انگریزی ہمارے سابق آقا کی زبان ہے۔ جس سے
ہمارے آباؤاجداد نے بڑی قربانیوں سے جان چھڑائی تھی۔ بدقسمتی سے آزادی کے
بعد کالے انگریز ہم پر مسلط ہوئے اور انہوں نے امور مملکت اردو کے بجائے
انگریزی میں چلانے شروع کیے۔ اشرافیہ کے بچوں کے لیے عیسائی مشنری سکول
معتبر کہلائے، رفتہ رفتہ مقامی طور پر انگریزی کو محمڈن ایجوکیشن سسٹم میں
ڈھال کر اشرافیہ نے انگریزی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ سرکاری اور غیر
سرکاری ملازمتوں کے لیے انگریزی میں مہارت بنیادی اہمیت قرار پائی۔ یوں
پوری قوم انگریزی سیکھنے اور اختیار کرنے میں جت گئی۔ یوں کہہ لیجیے کہ جس
فرنگی سے ہمارے بزرگوں نے طویل جدوجہد اور قربانیوں سے آزادی حاصل کی تھی
آج ہم بہ رضاورغبت اسی عطار کو لونڈے سے دوا لینے چلے ہیں۔
انگریزی محض زبان نہیں ایک تہذیب و ثقافت ہے اور ہمارے لیے تو فرنگیت اس
ظلم اور جبر کانام ہے کہ 1857 کے دوران ان درندوں نے ہمارے بزرگوں جو ظلم
کے پہاڑ توڑے تھے انہیں رقم کرنے اور شائع کرنے پربھی پابندی تھی۔ ہم غیرت
اور حمیت سے عاری ایسا گروہ بن چکے ہیں کہ اپنے آباؤاجداد کی تذلیل کرنے
والوں کو اپنا محبوب اور نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں۔
جوقوم غلامی کی اس سطح کو چھو لے کہ اس کے اندر سے احساس غلامی بھی چل بسے
تو وہ دنیا میں اپنی پہچان خود مٹا دیتی ہے۔
اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کی پہچان کیا ہونی چاہیے۔ |