مغرب نے انسانی بنیادی حقوق کی دعویداری کا پرچار
کچھ اس شِدّت سے کیا کہ مسلمانوں کی نحیف آواز کہیں دب کر رہ گئی۔ ہم نے
اپنے اسلاف کی خدمات کا کھوج نہ لگایا تاہم مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہو
کر بیٹھ رہے۔ اِسی بِنا پر اُنہوں نے خود کو مہذب قرار دے رکھا ہے ، وہاں
پرندوں، پودوں اور جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، ظاہر ہے
انسان تو اشرف المخلوقات ٹھہرا۔ (یہ کہانی دوسری ہے کہ مغرب کے دعوے اور
عمل صرف مغرب کے لئے ہی ہیں، مسلمانوں کے لئے اُن کے قانون بھی الگ ہوتے
ہیں) ۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں دلیل اور عمل کا جواب دلیل اور عمل سے دینے
کا چلن پیدا نہیں ہو سکا۔ ہمارے ہاں بہت ہی کم لوگ ہیں، جو مغربی دانشوروں
اور مصنفین کو علمی اور مدلّل جواب کے ذریعے لاجواب کرتے ہیں۔ استادِ مکرّم
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد اشرف بھی اُنہی میں سے ایک ہیں، اُنہوں نے اپنی
کتاب میں مغربی تصورات کے جوابات قرآن، حدیث اور اسلام کے روشن دور سے
مثالیں دے کر یکجا کئے ہیں، اُن کی کتاب کا عنوان وہی ہے جو زیرِ نظر کالم
کا ہے۔ اُنہوں نے کتاب میں بیان کئے گئے ہر موضوع پر قرآنی آیات کا حوالہ
دیا ہے، احادیث تلاش کی ہیں، مسلمان اکابرین کی کاوشوں کو منظر عام پر لائے
ہیں۔ یہی نہیں، مغربی مفکرین اور اقوامِ متحدہ کے اِس ضمن میں بنائے گئے
قوانین کا بھی تقابلی جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فلسفہ کے استاد ہیں،
اسلامیہ یونی ورسٹی بہاول پور اور پنجاب یونی ورسٹی میں عشروں تک ہزاروں
طلبا و طالبات میں علم کی روشنی پھیلانے کے بعد سِول سروسز اکیڈمی کے چیف
انسٹرکٹر کے دور پر بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ایک کالم میں پوری کتاب کا
خلاصہ بیان کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے والی بات ہے، تاہم یہ ناچیز کی
کم مائیگی ، الفاظ کے ذخیرے کی عدم دستیابی،اسلوب کی غیر موجودگی اور اپنی
محدود اور کم علمی کے ہوتے ہوئے عنوان کو سمیٹنے کی کوشش ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے عقل و شعور کی بلند ترین مقام پر فائز
ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُس کی رُشد و ہدایت کے لئے انبیاؑ کو مبعوث فرمایاتاکہ
انسان اپنے فطری نقطہ کمال کو پہنچ سکے۔ انبیاؑ کی بعثت کا مقصد انسانی
حقوق کا تزکیہ اور عدل پر مبنی معاشرہ قائم کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہادی
برحق ﷺ نے مدینہ میں جب اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو وہ رنگ، نسل، قبیلہ
اور برادری وغیرہ سے ماورا ایک فلاحی معاشرہ و ریاست کے طور پر ابھری۔
مسلمان جب تک اسلام کی بنیادی تعلیمات پر عمل پیرارہے، عظمتِ انسانی سے
سرفراز رہے اور جب ذاتی مفاد آگے آنے لگے تو معاملہ زوال پذیر ہوگیا۔
مسلمانوں کے زوال کے اسباب بھی کتاب میں بیان کئے گئے ہیں، جن میں ’’بنیادِ
اصلی‘‘ یعنی علم سے دوری، فرقہ واریت، مفاد یافتہ طبقہ کا سیاست و حکومت پر
قابض ہونا، اپنی بالا دستی کا تصور ، جس کے لئے مخالفین کو تہہِ تیغ کرنا
اور’ احسن تقویم ‘کا ’اسفل سافلین‘ بن جانا جیسے معاملات شامل ہیں۔
نفس اور روح پر نہایت تفصیلی اور مدلل مباحث بھی کتاب کا حصّہ ہیں۔ مصنف نے
قرآنی آیات کی روشنی میں یہ وضاحت کی ہے کہ نفس اور روح ایک دوسرے کے
مترادف نہیں، روح انسانی حیات کا سرچشمہ ہے، جبکہ نفس فکر، عقل، شعور، خیر
و شر کی تمیز اور عمل کا منبہ ۔ گویا روح بجلی ہے تو نفس بجلی کے استعمال
کے آلات۔ روح کے اچھا اور بُرا ہونے کا تصور غلط ہے، روح بلا تمیز مذہب و
ملّت پوری نوع ِ انسانی بلکہ ہر جاندار کی زندگی کا ذریعہ ہے۔ پورے قرآن
میں روح کی تربیت ، طہارت اور تزکیہ کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ جبکہ نفس کی
تربیت اور نفس کو مارنے وغیرہ کے بارے میں بہت تلقین ہے، نفس کا قرآن میں
تین سو مرتبہ ذکر آیا ہے، تاہم اس کے مختلف معانی لئے گئے ہیں۔ قرآن کریم
میں ارشادِ ربّانی ہے؛ ’’لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، اِن سے کہہ
دیجیے، روح میرے رَب کے حکم سے ہے، اور تمہیں بہت کم علم دیاگیا ہے۔‘‘
انسان میں نیکی بدی کا شعور کیسے پیدا ہوتا ہے، نفس کے بارے میں فرمایا گیا
ہے؛’’تحقیق کامیاب ہو گیا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا‘‘۔ نفس اپنے آپ
کو پہچاننے کے لئے ہے، اس کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں، نفسِ امّارہ(برائی
کی طرف راغب کرنے والا)،نفسِ لوامہ (برائی پر ملامت کرنے والا) اور نفسِ
مطمئنّہ (برائی سے بچ کر رہنے والا)۔
کتاب میں غلامی پر بہت مفصّل بحث موجود ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ
اسلام نے ہی غلامی کا خاتمہ کیا، قرآن میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے
کہ تمام انسان برابر ہیں،تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ اسلام
میں تو غلامی کے خاتمے کی ترغیب یوں بھی دی گئی ہے کہ اِسے گناہوں کا کفارہ
بنا دیا گیا، کئی چھوٹے گناہ ایسے ہیں کہ غلام آزاد کرنے سے اس کا کفارہ
ادا ہو جاتا ہے۔ اپنے ہاں بھی ابھی تک غلامی کی جدید اشکال موجود ہیں، جن
میں قرضہ کی بنیاد پر جبری مشقت، زرعی ہاری، رقم دے کر یا کسی اور حوالے سے
شادی کے نام پر بچیوں کی سپردگی، چائلڈ لیبر، انسانی سمگلنگ وغیرہ شامل ہیں۔
تاہم مغرب میں گزشتہ صدی تک غلامی اپنی اصلی حالت میں موجود تھی، جبکہ
اسلام نے ڈیڑھ ہزار برس قبل اس کے خاتمے کا اہتمام کردیا تھا۔ کتاب میں بین
الاقوامی انسانی حقوق بھی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام چونکہ مکمل
ضابطہ حیات ہے، قرآن میں فرمان ہے،؛ ’’جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور
ضابطہ زندگی تلاش کرے گا، تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا، اوراُخروی زندگی
میں گھاٹے کا شکار رہے گا‘‘۔ اسلام کے انسانی حقوق کچھ اس طرح ہیں، جان کا
حق (ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل، بچیوں کو زندہ درگور کر دیا
جاتا تھا) ، عدل وانصاف کا حق ،انسانی مساوات کا حق، عزت وآبروکا حق، ملکیت
کا حق، مذہب کی آزادی کا حق، مذہبی دل آزاری کے تحفظ کا حق، نجی زندگی کا
حق، معاشی تحفظ کا حق، تعلیم کا حق، سیاسی امور میں شرکت کا حق، تنظیم و
اجتماع کا حق، ظلم کے خلاف احتجاج کا حق۔ نبی آخرالزماںﷺ کا خطبہ حجتہ
الوداع بھی انسانی حقوق کی بہترین مثال ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی شائع کردہ
اِس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے قرآن و حدیث سے نکلنے والی لَوئیں دل و دماغ
کو منوّر و معطّرکرتی جاتی ہیں، قابلِ عمل نظامِ حیات یوں دعوتِ عمل دیتا
ہے کہ فرار کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔
|