خیالی پلاؤ
(Syed Haseeb Shah, Karachi)
جبکہ دور اندیشی اور درست نقشہ بنانا عمدہ کام ہے اس لیے نوکروں کی جگہ،گھی کے مرتبان کو تنبیہ کرنا مناسب نہیں ہے تاہم اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ یہ گھی کا مرتبان تھا اور نوکر نہ تھا ورنہ اب تک وہ خود مصیبت میں گرفتار ہوتا اور کوتوال کے سپاہی اسے گرفتار کرکے لے جاتے تاکہ اسے قید خانے میں ڈال دیں اور مقدمے کا فیصلہ کریں |
|
سعدی رحمۃ اللہ علیہ
کسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک سوداگر گھی کی خریدوفروخت کرتا تھا اس کے پڑوس
میں ایک سادہ لوح درویش رہتا تھا جو دنیا کے مال واسباب سے بے نیاز تھا
چونکہ اس کا کوئی کام اور ذریعہ آمدن نہ تھا اس لیے قناعت سے زندگی بسر
کررہا تھا۔
سوداگر کو اس درویش سے بڑی عقیدت تھی اور ہمیشہ اس کی مدد کرتا تھا وہ جب
کوئی نیا معاملہ اور خرید وفروخت کرتا اور اس میں فائدہ حاصل کرتا تو گھی
کا ایک پیالہ اس درویش کو بھیج دیتا تھا۔
جو خدمت گار گھی لے جاتا تھا وہ درویش سے کہتا،فلاں صاحب نے آپ کو سلام کہا
ہے اور پیغام دیا ہے کہ ہمارے لیے گاؤں سے تازہ گھی آیا ہے اس لیے ہم چاہتے
ہیں کہ ہمسایوں کو بھی اس میں شامل کریں ۔ہماری درخواست ہے کہ اسے قبول
کریں۔
درویش اللہ والا تھا اور کسی سے تحفے تحائف نہ لیتا تھا اس لیے سوچتا کہ
ممکن ہے یہ گھی دوسرے ہمسایوں کو بھی دیا گیا ہو گا اس لیے لے لیتا اور
زیادہ شرمندہ اور خفا نہ ہوتا لیکن وہ تو قناعت پسند تھا اس لیے اسے جو گھی
ملتا اس کا کچھ حصہ خرچ کرتا اور باقی ماندہ ایک بڑے مرتبان میں رکھ دیتا
تھا۔
ایک دن جب مرتبان گھی سے بھر گیا تو درویش اپنے آپ سے کہنے لگا،مجھے اس گھی
کی ضرورت نہیں ہے،پس اسے کہاں لے جاؤں اور کسے دوں․․․․اس کے بعد کہنے لگا
کسی کو گھی سے بھرا ہوا مرتبان دے دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ،وہ تو چند
دن میں کھا لیں گے اور اسے ختم کر دیں گے۔دوسری بات یہ ہے کہ بخشش تو وہ
کرے جس کی آمدن کا کوئی ذریعہ ہو ،اس کے علاوہ مجھ میں کونسا عیب ہے جبکہ
میں اہل وعیال سے بھی محروم ہوں،پس بہترہے اسے فروخت کردوں اور رقم تجارت
میں لگا دوں تاکہ روزانہ کچھ نہ کچھ آمدن ہوتی رہے اور دوسروں کی مدد بھی
کروں۔
درویش اس طرح سوچتا رہا اور کہتا،اب میں دیکھتا ہوں کہ اس کا وزن کتنا ہو
گا؟فرض کرتا ہوں یہ پانچ کلو ہو گا،پانچ کلو گھی کی قیمت کتنی ہو گی؟فرض
کرتے ہیں دو سو تومان․․․․خوب!اگر یہ گھی فروخت کر دوں تو اس رقم سے پانچ
دنبے خرید سکتا ہوں،اب جبکہ اگر میاں ہیں اور دنبوں کی خوراک وافر ہے
گھاس،تربوزوں کے چھلکے اور صحرا بھی سبزہ سے بھرا ہے اس لیے دنبوں کو صحرا
میں چرانے کے لیے لے جاؤں گا․․․․اگر چھ ماہ بعد ہر ایک نے بچہ دیا تو دنبوں
کی تعداد دس ہو جائے گی اس کے علاوہ سردیوں کے لیے کچھ خشک گھاس بھی جمع
کرلوں گا۔
چھ ماہ بعد پھر بچہ دیں گے،اب فرض کرتا ہوں اس مرتبہ انہوں نے ایک ایک بچہ
دیا تو ان کی تعداد بیس ہو جائے گی․․․․میں ان کی مزید ایک سال دیکھ بھال
کروں گا پھر ان کی تعداد بڑھ جائے گی اور دنبوں کا گلہ بن جائے گا اس لیے
ان کے دودھ ،دہی،پنیر،بالائی،گھی ادن سے جو رقم حاصل ہو گی گھر کا کافی
سامان خریدلوں گا اور صاحب حیثیت بن جاؤں گا،واقعی تجربہ کار لوگوں نے سچ
کہا ہے کہ دنبے مفید جانور ہیں ان کی سب چیز کار آمد ہوتی ہے،یہاں تک کہ ان
کا فضلہ بھی کسان اپنے کھیتوں کی خوراک کے لیے خرید لیتے ہیں جس وقت میرا
گھر زندگی کے ضروری سامان سے بھر گیا تو میرا شمار با حیثیت لوگوں میں ہو
گا اور میں ریوڑ کے مالک کے نام سے مشہور ہو جاؤں گا اس وقت میں کسی بزرگ
خاندان سے رشتہ طلب کروں گا اور شادی کے کچھ عرصہ بعد ایک بچے کا باپ بن
جاؤں گا چاہے میرا بچہ لڑکی ہو یا لڑکا۔
اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن اہم بات تو یہ ہے کہ بچے کی تعلیم وتربیت
اچھے طریقے سے ہونی چاہیے۔
ضروری ہے کہ میرا بچہ جوان ہو جائے گا تو ہنر مند پڑھا لکھا اور خوش بخت
ہو،ہاں!اس وقت میں عیالداری کی وجہ سے ریوڑ کی دیکھ بھال نہ کر سکوں گا اس
لیے ایک دونوکر رکھ لوں گا تاکہ دنبوں کی دیکھ بھال کریں اور انہیں چرانے
کے لیے صحرا میں لے جائیں ان کا دودھ فروخت کریں،انہیں چارہ دیں اور گھر کے
دوسرے کام بھی کریں لیکن آج کل کے بچے نہایت شیطان ہیں جب میرا بچہ پانچ چھ
سال کا ہو جائے گا اور کھیلنا چاہے گا تو ممکن ہے اپنے دنبوں کو اذیت دے
اور کسی دن ان کی پیٹھ پر سوار ہو جائے لیکن وہ تو بچہ ہو گا اس لیے اسے
پیار سے منع کروں گااور کہوں گا کہ دنبے سواری کے جانور نہیں ہوتے لیکن
نوکر تو بچے سے نرمی سے پیش نہیں آئیں گے اور ممکن ہے کسی دن بچے کو تھپڑ
دے ماریں اور اسے کہیں کہ ایسی حرکتوں سے بازرہو لیکن میں نہ چاہوں گا کہ
میرا بچہ غمگین ہویہ تو نوکر کی غلطی ہو گی کہ بچے کو تھپڑ مارے ،اگر ایسا
اتفاق ہوا تو اسی لاٹھی سے جو میرے ہاتھ میں ہے ایسے زور سے نوکر کے سر پر
رسید کروں گا کہ․․․․
سادہ لوح درویش اسی طرح خیالات میں ڈوبا ہوا تھا اور نوکر کو ڈانٹنے اور
مارنے کی فکر میں تھا․․․․اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی چنانچہ اس نے وہی
لاٹھی،گھی والے مرتبان پر دے ماری ․․․․․مرتبان ٹوٹ گیا جو ایک سٹول پر رکھا
تھا،اس طرح گھی زمین پر بہہ گیا اور اس کے چھینٹوں سے درویش کے کپڑے بھی
خراب ہو گئے اور اس کے اوسان خطا ہو گئے․․․․
کچھ دیر کے بعد اسے کچھ ہوش آیا اور سمجھ گیا کہ خیالی پلاؤ پکانا اور بے
فائدہ سوچ بچار کرنا بیہودہ کام ہے۔
جبکہ دور اندیشی اور درست نقشہ بنانا عمدہ کام ہے اس لیے نوکروں کی جگہ،گھی
کے مرتبان کو تنبیہ کرنا مناسب نہیں ہے تاہم اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا
کیا کہ یہ گھی کا مرتبان تھا اور نوکر نہ تھا ورنہ اب تک وہ خود مصیبت میں
گرفتار ہوتا اور کوتوال کے سپاہی اسے گرفتار کرکے لے جاتے تاکہ اسے قید
خانے میں ڈال دیں اور مقدمے کا فیصلہ کریںض
|
|