کاون ہاتھی یا پاکستانی سیاست دان
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
حال ہمارے سیاست دانوں کا ہے وہی حال ’’کاون ‘‘ ہاتھی کا ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اور بالخصوص پارلیمنٹ ہائوس کے قریب اسلام آباد میں رہنے کے باعث کاون ہاتھی بھی پاکستانیوں کی نفسیات کو سمجھ گیا تھا اور اس لیے اس نے سیاست دانوں کا ہی طریقہ اختیار کیا اور کمبوڈیا پہنچتے ہیں اس کی حالت بہتر ہوگئی ہے |
|
|
35 برس سے پاکستان میں موجود سری لنکن ہاتھی کاون کی کہانی آجکل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ذرائع ابلاغ پر اس وقت سیاست کے علاوہ اگر کسی کا چرچا ہے تو وہ کاون ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ بی بی سی کے مطابق کاون ہاتھی 1981 کو سری لنکا میں پیدا ہوا اور اس کو 1985 کو پاکستانی صدر جنرل ضیا ء الحق کی فرمائش پر چار سال کی عمر میں پاکستان کو تحفے میں دے دیا گیا۔ جس کے بعد کاون ہاتھی کو اسلام آباد چڑیا گھر منتقل کردیا گیا۔6 برس بعد بنگلا دیش کی سابق وزری اعظم خالدہ ضیا نے ایک مادہ ہتھنی پاکستا کو تحفے میں دی۔ جس کا نام سہیلی رکھا گیا اور اس کے ساتھ کاون کا جوڑا بنایا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2012میں اپنی ساتھی ہتھنی کے انتقال کے بعد کاون شدید ذہنی دبائو اور تنہائی کا شکار ہوگیا۔ وہ چڑیا گھر میں یا تو کھڑا کھڑا اپنا سر دائیں سے بائیں ہلاتا رہتا یا پھر دیواروں سے سر ٹکراتا رہتا۔2015میں پاکستان نژاد امریکی خاتون ثمر خان جو کہ جانوروں کی ڈاکٹر ہیں نے کاون کو دیکھا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ہاتھی شدید ذہنی دبائو اور اذیت کا شکار ہے۔ ان خاتون نے ہاتھی کی رہائی کے لیے مہم چلائی اور اس مہم میں ان کےساتھ امریکی گلوکارہ شیرا بھی شامل ہوگئیں۔ قصہ مختصر کہ کئی برسوں کی جدو جہد کے بعد کاون ہاتھی کو کمبوڈیا بھیجنے کا حتمی فیصلہ کیا گیا ۔30 نومبر کو یہ میڈیا رپورٹس کے مطابق شدید ذہنی دبائو ، تنہائی اور بیماری کا شکار ہاتھی کمبوڈیا پہنچ گیا۔ یہ تو کاون ہاتھی کے طویل قصے کا خلاصہ ہم نے آپ کے سامنے رکھا۔ لیکن یکم دسمبر کو جنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمبوڈیا پہنچنے کے بعد کاون ہاتھی کی حالت ہی تبدیل ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں چمک آگئی، وہ وہاں خوشی کا اظہار کرنے لگا اور اس کو وہاں ایک ساتھی بھی مل گیا۔کاون ہاتھی کی حالت بہتر ہونے کی خبر بہت خوش آئند ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ سدا خوش رہے، آباد رہے، ہنسی خوشی اپنی زندگی گزارے ، بال بچے پیدا کرے۔ لیکن کاون ہاتھی کی اس اچانک کایا کلپ سے ہمیں ایسا لگتا ہے کہ کاون ہاتھی گزشتہ کئی برسوں سے ڈرامہ کررہا تھا۔ بالکل ہمارے سیاست دانوں کی طرح کہ جب تک وہ حکومت میں رہیں تو بالکل تن درست اور فعال ہوتے ہیں۔ ان کی پھرتیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ناشتہ ایک شہر تو دوپہر کا کھانا اور دوسرے شہر اور رات کا کھانا تیسرے شہر میں کھاتے ہیں۔ آئے دن مختلف ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ان کی حکومت ختم ہوتی ہے۔ ان پر اچانک بیماریاں حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ یہ لوگ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتے۔ انہیں مختلف عارضے لاحق ہوجاتے ہیںاور ان کا علاج بیرون ملک ہی ہوسکتا ہے ملک میں رہ کر نہیں ۔ بس پھر جیسے ہی یہ لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں ان کی تمام بیماریاں دور ہوجاتی ہیں۔ تما م عارضے ختم ہوجاتے ہیں۔ان کی آنکھوں میں چمک آجاتی ہے، ان کی حالت بدل جاتی ہے اور وہاں یہ دوبارہ موج مستیوں میں لگ جاتے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نواز شریف اور جنرل مشرف کے دور میں بیمار ہی رہتے تھے۔ ان کی گردن میں بھی ایک کالر لگ گیا تھا۔ وہ ذہنی مریض بھی بن گئے تھے لیکن جیسےہی وہ دبئی پہنچے ان کی ذہنی حالت ٹھیک ہوگئی، بیماریاں ختم اور گردن سے کالر بھی نکل گیا۔ اس کے بعد وہ اپنی پانچ سالہ حکومت اور دورِ صدارت میں مکمل تن درست رہے ۔ البتہ آج کل دوبارہ ان کی طبعیت ناساز ہے۔ سابق صدر جنرل مشرف بھی حکومت چھوڑنے کے بعد ملک بھی چھوڑ گئے۔ جب جب انہیں عدالت طلب کرتی ہے وہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ البتہ حالات ساز ہوتے ہیں وہ تن درست ہوجاتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بھائی سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف 2018 کے الیکشن تک بالکل ٹھیک تھے۔ ان کو کوئی بیماری نہیں تھی لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد میاں نواز شریف کی طبیعت خراب رہنے لگی اور وہ مستقل بیمار رہنے لگے۔ البتہ علاج کی غرض سے لندن جانے کے بعد ان کی طبعیت بہتر ہوگئی۔ وہ بالکل تن درست ہوگئے۔ لندن میں بھی وہ پائے اور نان کھاتے رہے البتہ جیسے ہی انہیں عدالت طلب کرتی ہے ویسے ہی ان کی بیماریاں عود کر آتی ہیں۔ وہ ہسپتال میں داخل ہوجاتے ہیں۔ میاں شہباز شریف بھی بالکل تن درست ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی مقدمات کی سماعت شروع ہوتی ہے موصوف بیمار پڑ جاتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جو حال ہمارے سیاست دانوں کا ہے وہی حال ’’کاون ‘‘ ہاتھی کا ہے۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اور بالخصوص پارلیمنٹ ہائوس کے قریب اسلام آباد میں رہنے کے باعث کاون ہاتھی بھی پاکستانیوں کی نفسیات کو سمجھ گیا تھا اور اس لیے اس نے سیاست دانوں کا ہی طریقہ اختیار کیا اور کمبوڈیا پہنچتے ہیں اس کی حالت بہتر ہوگئی ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ |