‎قدرت کا حساب

اپنے ذاتی مشاہدات اور حاضر معلومات کی بناء پر ہم مکافات عمل پر کوئی خاص یقین نہیں رکھتے ۔ ہم نے بہت سے بہت بھلے اور بےضرر لوگوں کو شدید مصائب و مشکلات آفات و حادثات اور ظلم زیادتی ناانصافی مظالم کا نشانہ بنتے دیکھا ہے اور ایسا کرنے والے نہایت ظالموں غاضبوں بےرحم بےایمان لوگوں کو عروج پاتے اور خوب پھلتے پھولتے دیکھا ہے ۔ یہ سب لوگ دوسروں کی زندگیاں اجاڑنے والے ان کا حق مار کر کھانے والے انہیں خون کے آنسو رلانے والے ٹھاٹ کی زندگی بسر کرتے ہیں اور باٹ کی موت مر جاتے ہیں ۔ آپ نے کتنے ایسے لوگوں کو دیکھا عبرتناک انجام سے دوچار ہوتے ہوئے؟ سینکڑوں ہزاروں میں کوئی ایک آدھ ۔ ویسے بھی اعمال کی جزا و سزا اگر اسی دنیا میں ملنے لگ گئی تو یوم حساب اور جنت و جہنم کا کیا مصرف رہ جاتا ہے ۔ اب ذرا یہی دیکھ لیں کہ گستاخانہ خاکے فرانس میں بنائے گئے اور زلزلہ ترکی میں آیا ۔ پھر اوپر سے سیلاب کے عذاب نے بھی آ لیا ۔ لیکن اس وقت ہمارا موضوع ملکی یا عالمی منظرنامہ نہیں ہے ۔ اپنے علم میں آنے والے ایک واقعے کی یاد ہے جس میں پائے جانے والے عجیب اعداد و شمار نے ہمیں اسے سپرد تحریر کرنے پر مجبور کر دیا ہے ۔

ایک بظاہر بہت مذہبی اور دیندار گھرانے نے اپنی بیٹی کی شادی طے کر دینے کے بعد اپنی بہو کو بلوایا اور ایک مخصوص روایتی انداز میں پیسوں کی تنگی اور مالی مشکلات کا رونا رو کر اس سے اپنے بری میں چڑھائے ہوئے طلائی زیور کی واپسی کا مطالبہ کر دیا ۔ بہو تو اس نوٹنکی پر بھونچکی رہ گئی کیونکہ اس کا شوہر تو پردیس میں کماتا تھا اور بیوی کو پاس بلانے کی اہلیت رکھنے کے باوجود اسے تنہا رکھ کر اور اپنے پورے خاندان کی غلامی میں دے کر اپنے پورے گھر کا خرچ چلاتا تھا ۔ زیور بھی اسی کی کمائی سے بنوایا گیا تھا اور اب بھی بہن کی شادی کا پورا خرچ اکیلا وہی اٹھا رہا تھا ۔ ایسے میں اسی قربانی کے بکرے کی بیوی سے اس کا زیور طلب کرنا یقیناً بہت زیادتی بلکہ خوف خدا سے قطعی بےنیازی والی بات تھی ۔ مگر اس بیچاری کا تعلق ایک نسبتاً کمزور اور سفید پوش گھرانے سے تھا اس کے میکے والوں کی طرف سے کسی اعتراض یا احتجاج کو کسی خاطر میں لائے جانے کی امید نہیں تھی ۔ اگر ان کا کوئی ڈر ہوتا کوئی حیثیت و وقعت ہوتی تو اتنی نوبت ہی کیوں آتی؟ پھر اوپر سے وہ غریب بےاولاد بھی تھی اور روایتی طور پر اس کی ذمہ داری بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں اسی پر عائد کی جاتی تھی ۔ پھر شوہر کو بھی اپنے گھر والوں کا ہمنوا پا کر اس نے بہت بےبسی اور دُکھے ہوئے دل کے ساتھ اپنا شادی کا زیور سسرال والوں کے حوالے کر دیا اور آہستہ سے بس اتنا کہا کہ خدا کرے کہ یہ واپسی آپ کو راس آئے پہننا برتنا نصیب ہو ۔ یہ سن کر سسرال والے ایک لمحے کو تو دہل کر رہ گئے مگر جو لوگ خدا سے بھی نہیں ڈرتے ان سے کوئی بھی نہیں جیت سکتا ۔ بہو کا زیور تُڑوا کر اپنی بیٹی کے لیے چوڑیاں بنوائی گئیں چھ عدد ، علاوہ دیگر زیورات کے ۔

اور اس کے بعد اس بہو کے ہاں جڑواں بیٹے پیدا ہوئے ۔ بےاولادی کا داغ بھی دُھلا دل سے اور اپنے نام سے ، ساتھ ہی اس خوشی میں شوہر نے اسے پہلے سے دگنے وزن کا زیور بھی لے دیا ۔ چند برس گذرے ہوں گے کہ جس بیٹی کی شادی ہوئی تھی ایک شام اپنے شوہر کے ساتھ کسی دعوت میں جانے کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکلی ۔ دونوں کچھ دور پہنچے ہوں گے کہ ایک سنسان جگہ پر بائیک پر سوار دو نقاب پوش افراد نے انہیں گن پوائنٹ پر روک لیا اور لوٹ مار چھینا جھپٹی شروع کر دی ۔ خاتون کے ہاتھ میں وہی اس کے جہیز والی چھ چوڑیاں تھیں جو انہوں نے اتروا لیں ۔ اس کے شوہر کا بٹوا اور موبائل چھینا ، اسی اثناء میں ایک دو گاڑیوں کو قریب آتا دیکھ کر وہ فرار ہو گئے ۔ اب کیا اس واقعے کو مکافات عمل کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے؟ کیونکہ ہمارے ہاں تو اس قسم کے واقعات کا پیش آنا ایک معمول کی بات ہے جس کی زد میں بلا تخصیص سبھی آ جاتے ہیں ناجائز اور حرام طریقوں سے کمانے والے بھی اور بہت محنت مشقت کر کے حق حلال کی روزی کمانے والے بھی ۔

بہو کو اس واقعے کا علم ہؤا تو کسی خیال کے زیر اثر وہ بری طرح چونک پڑی ۔ زیور واپسی کا قصہ اس نے اپنی نوٹ بک میں مختصراً تحریر کر لیا تھا اور وقوعے کی تاریخ تو اس کے دل پر لکھی ہوئی تھی ۔ اس نے موٹا موٹا سا زبانی حساب لگایا پھر تصدیق کے لیے اپنی نوٹ بک نکالی ، وہ تاریخ دیکھی جس میں اس سے سسرال والوں نے اس کا شادی کا زیور واپس لیا تھا اور پھر یہ تاریخ جس پر یہ ڈکیتی والا واقعہ پیش آیا تو دونوں کے درمیان ٹھیک چھ سال چھ مہینے اور چھ دن کا فاصلہ تھا ۔ اس نے بار بار حساب لگایا ہر بار یہی مدت نکلی ۔ اب اگر یہ اتفاق تھا تو بہت عجیب اتفاق تھا ۔ ماننا پڑے گا کہ یہ قدرت کا حساب تھا جو وہ کبھی کبھی اسی دنیا میں بھی لے لیا کرتی ہے ۔
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 223 Articles with 1682057 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.