ہماری ادھوری خواہشیں

اسلام و علیکم قارئین بہت سارے دنوں کے بعد دوبارہ آپ سے رابطہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب بھی کوئی بات میرے دل کو پریشان کرے گی تو میں آپ کے سامنے اپنی سوچ کو لفظوں کے سہارے پیش کر دوں گی ۔

آج میں جس موضوع کو شرفِ تحریر بخش رہی ہوں وہ ہمارے بچوں سے متعلق ہے ۔ ہم سب کہیں نہ کہیں اپنی ادھوری خواہشات اپنے جان سے پیارے بچوں کے کندھوں پر لاد دیتے ہیں ۔ شروعات اگر بچپن سے کی جاے تو ہمیں شروعات سے ہی پڑھائی میں A گریڈ چاہیے ہوتا ہے . A گریڈ نہ آے تو بچے کو برا بھلا کہتے ہیں کہ ہم تمہاری ہر خاہش پوری کرتے ہیں تم کو صرف ایک کام ہے وہ بھی نہیں کر سکتے ۔ کس چیز کی کمی رکھی ہے ہم نے ۔ ہم کبھی سوچتے ہی نہیں کہ ہمارے زمانے میں جب ہم پانچ سال کی عمر میں سکول جانا شروع ہوئے تھے اور پڑھائی بھی ہم کو ہماری اپنی زبان میں کروائی جاتی تھی ۔ ہمارے والدین نے ہم سے کبھی A گریڈ کی فرمائش نہیں کی تھی وہ ہمارے پاس ہونے پر بھی بے تحاشا خوش ہو جاتے تھے ۔ اور آج کل کے بچے بچارے ڈھائی تین سال کے ہوتے ہیں کہ سکول شروع ہو جاتا ہے ۔ اس پر ستم کہ گھر میں ماں باپ اردو یا کوئی علاقائی زبان بولتے ہیں اور سکول جاتے ہی جب استاد ایک عجیب نامعلوم زبان “انگلش” میں بات کرتے ہیں تو پڑھائی دنیا کا مشکل ترین کام لگنے لگتا ہے ۔ پھر ماں باپ اور استاد کی فرمائش پر انگلش بولنا بھی سیکھنا ہے ۔ لکھنا بھی دکھنا ہے اور پڑھنا بھی ۔ پھر فرمائشی پروگرام میں آضافہ ہوتا ہے اور اچھے گریڈ کی فرمائش بھی پوری کرنی ہوتی ہے ۔

آپ کو نہیں لگتا یہ بہت زیادہ غلط ہے ۔ ہمیں کیوں لگتا ہے کہ ہم جیسے عام انسانوں کے گھر البیرونی یا آئین سٹائین جیسے بچے پیدا ہوئے ہوں گے ۔ اپنی یادداشت کو زرا جگائیں اور یاد کرئیں آپ کے کیا گریڈ تھے ۔ بچے کو نارملی بڑھنے دئیں آپ کے بے جا دباؤ سے وہ آئین سٹائین تو نہیں پر ذہنی مریض ضرور بن جائے گا ۔ کیوں کے وہ بچہ ہے اتنا دباؤ برداشت نہیں کر سکے گا ۔

اب بات کرتے ہیں ذرا سے بڑے بچوں کی جب وہ کسی نہ کسی طرح گریڈ کے چکر کو پار کر کے وہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ انھوں نے کس پروفیشن مین جانا ہے تب بھی گھر کے بڑے فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے یا انجینئر یا پھر فوج میں جا کر باپ دادا کے نام کو روشن کرئیں گے ۔ اور بچے بچارے یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ اپنی زندگی کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں ۔

جانتے ہیں ہمارے معاشرے میں اتنا ڈپریشن کیوں ہے ۔ کیوں کہ کوئی بھی اپنی مرضی کا کام نہیں کر رہا ۔ ڈاکٹروں کو مریضوں سے کوئی لگاؤ نہیں کیوں کہ اسے ڈاکٹر بننا ہی نہیں تھا ۔ استاد اتنے چڑچڑے کیوں ہیں کیوں کہ انھوں استاد بننے کا نہیں سوچا تھا ۔ کہیں اور جاب نہیں ملی تو ٹیچر بن گئے ۔ پرانی عمارتیں اتنی مضبوط کیوں تھیں کیوں کہ گنے چنے انجینئر تھے جو دل سے کام کرتے تھے ۔ آج کے انجینئر والدین کی فرمائش پر اس پرفیشن میں اے ہیں انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا ان کی بنائی گئی عمارت کب زمین بوس ہوتی ہے ۔

غور کیجے گا اور اگر میں ٹھیک ہوں تو آج سے بے جا مداخلت بند کر دیں۔ جن کی زندگی ان کو جینے دیں ۔ یقین رکھیں ان پر ۔ ان کی خوشی میں خوش ہونا سیکھیں اس سے وہ زیادہ کامیاب اور خوش رہیں گے ۔

 
Maryam Sehar
About the Author: Maryam Sehar Read More Articles by Maryam Sehar : 48 Articles with 58412 views میں ایک عام سی گھریلو عورت ہوں ۔ معلوم نہیں میرے لکھے ہوے کو پڑھ کر کسی کو اچھا لگتا ہے یا نہیں ۔ پر اپنے ہی لکھے ہوئے کو میں بار بار پڑھتی ہوں اور کو.. View More