صاحب ! سوال تو ہم کرینگے چاہے برا لگے.

جب سارے صحافی رخصت ہوگئے تو مجھے مخاطب کرتے ہوئے امیر منگل باغ نے کہا کہ تم کیسے صحافی ہو اور یہ کیسے سوال کیا تم نے مجھ سے ، سب کے سامنے ، اس کے ساتھ ہی منگل باغ نے نیچے ایک کھائی کی طرف اشارہ کیا اور کہاکہ تم تو شریعت کے مطابق بھی نہیں ہوں کیوں نہ تمھیں یہاں سے گرائیں ، اس وقت ہم ایک پہاڑ پر کھڑے تھے میں دل میں اندر ڈر گیا کہ کیا پتہ ابھی لات ماریں اور گرا دیں ان سے پوچھنے والا کون ہے . لیکن اللہ تعالی کی مدد شامل حال تھی میں نے جواب دیا کہ امیر صاحب آپ بھی پٹھان ہیں اور میں بھی پٹھان ہوں اگر پٹھان مہمانوں کیساتھ ایسا کرتے ہیں تو ٹھیک ہے جس پرامیر منگل باغ ہنس پڑا ساتھ میں کہہ دیہ بڑے بے وقوف صحافی ہو اس طرح کے سوال پوچھتے ہو، میں نے جواب دیا کہ سوال تو کنفیوژن دور کرنے کیلئے ہے اگر سوال نہیں کرونگا تو کنفیوژ رہونگا اور کنفیوژن پھیلائو ں گا آپ بتا دیں میں کنفیوژن تو نہیں پھیلائونگا.
صوبے کے دوسرے اور پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن نہ ہونے کے باعث چار افراد کی ہسپتال انتظامیہ نے تصدیق کردی ہے جبکہ آزاد زرائع آٹھ بچوں کی ہلاکت کی تصدیق کررہے ہیں پشاور شہر کے یونیورسٹی روڈ پر واقع اس بڑے ہسپتال میں آکسیجن نہ ہونا کس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تبدیلی کے نام پر آنیوالے حکمران جنہوں نے ہسپتالوں میں اصلاحات کے دعوے کئے ہیں سب جھوٹ پر مبنی ہیں اور یہ پرانے چوروں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں یعنی کفن چور ی کیساتھ مردے کی بے عزتی تو چھوڑیں بے عزتی کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے والے افراد ہیں-اگر پشاور میں یہ حال ہے تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ صوبے کے دیگر اضلاع میں ہسپتالوں کی کیا صورتحال ہوگی-یہ خبریں نہ تو ماشاء اللہ ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چل سکتی ہیں کیونکہ ان دونوں کا موجودہ حکومت نے " ختنہ کیا ہوا" اور ختنے کے بعد جس طرح بچے تڑپ رہے ہوتے ہیں اسی طرح کی صورتحال یہاں بھی ہے ہاں سوشل میڈیا پر خبریں آنے کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز کو بھی ہوش آتا ہے اورپھر بریکنگ چلتی ہیں ورنہ غریب آدمی مر جائے تو پروا کس کو ہے..

سوشل میڈیا پر اموات کی خبریں چلنے کے بعد ہمارے وزیر صحت جو کہ ماشاء اللہ امپورٹڈ وزیر ہیں یعنی چھاتہ بردار ہیں اور بنی گالہ والی سرکار کے گڈ بک میں ہیں انہیں بھی ہوش آگیا اور انہوں نے فورا ہی ہسپتال کی بورڈ آف گورنرز کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی اور ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ سوشل میڈیا پر سوالات نہ اٹھائے جائیں کیونکہ صاحب کو تکلیف ہوتی ہیں-صاحب جی تکلیف تو آپ کو ہوتی ہے لیکن اس تکلیف اور دکھ و دردکی انتہا دیکھیں جن کے بچے اموات کا شکار ہوگئے ہیں-کیا ہسپتال میں تعینات عملہ سویا ہوا تھا ، تنخواہیں اس غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے دی جارہی ہیں ، لوگ خون پسینہ ایک کرکے ملک میں ٹیکس اس بات کے دیتے ہیں کہ انہیں بدلے میں اموات ملے.ٹھیک ہے کہ موت و زندگی اللہ کی طرف سے ہے لیکن کیا موت کی طرف لے جانیوالے افراد کی نشاندہی ہو سکے گی اور کیا انہیں سزا ملے اور کیا اسی ہسپتال کے بورڈ آف گورنر کیا اپنے ہسپتال کے ملازمین کے خلاف رپورٹ لکھ سکیں گے اور کاروائی ہوسکے گی . یہ وہ سوال ہیں جو اس صوبے کے معصوم عوام جاننا چاہتے ہیں جنہیں ڈھول کی تھاپ پر تبدیلی کے نام پر نچوایا گیا اور پھر اب انہیں اموات دی جارہی ہیں-

ویسے محترم سوال تو ہمارا حق ہے ، اگر جواب نہ دینا چاہیںتو یہ آپ کی مرضی ہے ، ویسے حکمرانوں اور کرسی اورطاقت میں بدمست لوگوں کو سوال کرنے والے افراد خواہ وہ صحافی ہو ، سول سوسائٹی سے ہو یا کسی بھی شعبے سے ہیں انہیں برے لگتے ہیں- کبھی کبھار اپوزیشن کو بھی یہ سوال برے لگتے ہیں-

اللہ صحت نصیب کرے نواز شریف کو ، کیا کمال کے آدمی تھے اب تو ماشاء اللہ لندن میں زیر علاج ہیں ، پتہ نہیں کس چیز کا علاج کررہے ہیں لیکن جب اپوزیشن میں تھے تو انہیں بھی سوال برے لگتے تھے غالبا دس سال یا بارہ سال پرانی بات ہے نواز شریف صاحب اپوزیشن میں تھے.نواز شریف صاحب کو پشاور کے نواحی علاقے جھگڑا میں ایک صاحب جنہیں بعد میں گورنر بھی لگا دیا گیا کے گھر آنا تھا ہمیں بھی دیگر ٹی وی چینل کی طرح صبح آٹھ بجے بلایا گیا تھا کہ صاحب نے آنا ہے اور آپ نے کوریج کرنی ہے. پشاور کے صحافیوں کا ایک جم غفیر صبح آٹھ بجے جھگڑا پہنچ گیا تھا آٹھ بجے تو کیا آنا نواز شریف دن تقریبا ایک بجے پہنچے اور میٹنگ کے بعد صحافیوں سے بیٹھک شروع کی -اس وقت سب ساتھیوں کو میں نے کہاتھا کہ پہلا سوال میں کرونگا ، نواز شریف صاحب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کا شکریہ ۔کہ آپ لوگ آئے ہیں ، میں نے جھٹ سے جواب دیا کہ آپ کا بہت شکریہ ، صبح آٹھ بجے سے بلا کر ایک بجے تک انتظار میں رکھا .صبح آٹھ سے ایک بجے تک نہ تو کسی نے کرسی دی کہ بیٹھ جائو صحافی بھی انسان ہوتے ہیں لیکن آپ آئے ہیں تو ماشاء اللہ کرسیاں بھی مل گئی ہیں اور اب عزت بھی مل رہی ہیں-ہم آپ کے پارٹی ورکرز نہیں کہ زندہ باد کرتے پھریں جب صحافیوں کو بلایا کریں تو وقت پر بلایا کریں اور کم از کم بیٹھنے کیلئے جگہ تو فراہم کردیا کریں -

صحافیوں کیساتھ بیٹھے نوز شریف کا اس مکاملے پر رنگ سرخ ہوگیا اور اس نے اس وقت میزبان کی طرف دیکھ لیا- میزبان نے جلدی سے ہاتھ اٹھا لیا اور کہا کہ خیر ہے ہم معذرت خواہ ہیں آپ کیلئے دوسرا پروگرام ہے.میں نے جھٹ سے جواب دیا کہ جھگڑا صاحب آپ کا شکریہ.. لیکن ہم دوسرے پروگرام والے لوگ نہیں..خیرنواز شریف نے معذرت کردی لیکن صحافیوں سے ملاقات کے بعد میزبان کے ایک چمچے نے میرا ہاتھ پکڑا اور الگ لیکر گئے اور کہا کہ آپ نے تو ہماری اپنے گھر میں شلوار اتار دی- میں نے کہا کہ صاحب آپ صبح آٹھ بجے سے ایک بجے تک صحافیوں کی بے عزتی کرواتے رہیں تو آپ کو خیال نہیں آیا.ہمارے کچھ ساتھیوں نے بھی کہا کہ " پریگدہ مڑہ" ساتھ میں ان صاحب کو الگ لیکر گئے ہم بھی غصے میں تھے کچھ مخصوص ساتھیوں نے پانی پلایا. اور ہم نکل آئے پھر دوسرے پتہ چلا کہ جنہوں نے پانی پلایا تھا " انہوں نے صاحب لوگوں کو کہاتھا کہ "دا سہ لیونے دے مونگ بہ ئی ٹھیک کڑو" اور ہمارے نام پر خرچہ پانی بھی لیا تھا. خیر جھگڑا گائوں سے نکلنے کے بعد دفتر پہنچے ہی تھی کہ بیورو چیف بھی پہنچ گیا ہم بھی حیران و پریشان کہ یا اللہ یہ کیامعاملہ ہے آج بیورو چیف جلدی آئے ہیں- انہوں نے بلایا اور پوچھا کہ مسرت کیا کیا ہے میں نے جواب دیا کہ پریس بریفنگ میں یہ باتیں ہوئی تھی جس پر ہمارے شریف بیورو چیف اللہ تعالی ان پر رحم کرے ، ہنس پڑے اور کہا کہ ٹی وی چینل کے مالک کا فون آیا کیونکہ نواز شریف نے انہیں فون کیا تھا کہ آپ کے رپورٹر نے میری بے عزتی خراب کی ہے ، جس پر بیورو چیف نے کہا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ہوگی لیکن خیر میں پھر بھی پتہ کرتا ہوں- ہمارے بیورو چیف نے پھر ای میل کیا ہوگا لیکن اللہ ان کا بھلا کرے انہوں نے پھر اس حوالے سے پوچھا بھی نہیں .یہ ہے اپوزیشن میں رہنے والے نواز شریف ، جنہیں اس وقت بھی سوال برے لگتے تھے جب وہ اپوزیشن میں تھے ہاں انہیں وہ صحافی اچھے لگتے تھے جو ان کی مرضی کے سوال کریں .سوال میزبان یا طاقت والوں کے مرضی کے ہوں تو آپ صحافی بھی ٹھیک ہے ورنہ .

غالبا سال 2009 کی بات ہے اس وقت باڑہ میں ملٹری آپریشن شروع نہیں ہوا تھا ہم کچھ صحافی دوست جن میں کچھ امریکی نیو ز ایجنسی سے تعلق رکھتے تھے اور کچھ مقامی اخبارات سے ہیں ان میں ایک دو تو اب مرحوم ہو چکے ہیں کیساتھ تیراہ کے علاقے میں منگل باغ کا انٹرویو کرنے گئے تھے - انٹرویو کے دوران سب نے سوال کیا جب ہماری باری آئی تو سوال پوچھا کہ امیر صاحب یہ کیسا اسلام ہے ایک طرف آپ کے پاس خودکش جیکٹ ہے ، دوسری طرف تلوار پہنے لوگ ہیں جس پر لشکر اسلا م کے امیر نے جواب نہیں دیا لیکن خاموش ہوگئے -لیکن جب واپسی کا عمل شروع ہوگیا اور ہر کوئی ان سے مل رہا تھا جب میری ان سے ملنے کی باری آئی تو انہوں نے مجھے روک دیا اور سائیڈ پر کردیا میں سمجھا آخر میں ملیں گے-

جب سارے صحافی رخصت ہوگئے تو مجھے مخاطب کرتے ہوئے امیر منگل باغ نے کہا کہ تم کیسے صحافی ہو اور یہ کیسے سوال کیا تم نے مجھ سے ، سب کے سامنے ، اس کے ساتھ ہی منگل باغ نے نیچے ایک کھائی کی طرف اشارہ کیا اور کہاکہ تم تو شریعت کے مطابق بھی نہیں ہوں کیوں نہ تمھیں یہاں سے گرائیں ، اس وقت ہم ایک پہاڑ پر کھڑے تھے میں دل میں اندر ڈر گیا کہ کیا پتہ ابھی لات ماریں اور گرا دیں ان سے پوچھنے والا کون ہے . لیکن اللہ تعالی کی مدد شامل حال تھی میں نے جواب دیا کہ امیر صاحب آپ بھی پٹھان ہیں اور میں بھی پٹھان ہوں اگر پٹھان مہمانوں کیساتھ ایسا کرتے ہیں تو ٹھیک ہے جس پرامیر منگل باغ ہنس پڑا ساتھ میں کہہ دیہ بڑے بے وقوف صحافی ہو اس طرح کے سوال پوچھتے ہو، میں نے جواب دیا کہ سوال تو کنفیوژن دور کرنے کیلئے ہے اگر سوال نہیں کرونگا تو کنفیوژ رہونگا اور کنفیوژن پھیلائو ں گا آپ بتا دیں میں کنفیوژن تو نہیں پھیلائونگا.

اس پر امیر منگل باغ ہنس پڑا واسکٹ کے جیب میں ہاتھ ڈالا اور تین ہزار روپے جیب سے نکال کر مجھے دئیے کہ یہ تمھارا انعام ہے لیکن پھر جب آئو گے تو تمھیں سوال کا جواب دے دونگا - ساتھ میں ایک کمانڈر جو بعد میں قتل ہوگیا تھا کو مخاطب کیا کہ رمضان کے بعد ان صاحب کو پھر لے آنا. پھر انٹرویو کرینگے اورہم جان بچی لاکھوں پائے کے مصداق وہاں سے نکل آئے.راستے میں کیا کیا ہوا یہ الگ داستان ہے لیکن سوال پوچھنے کی عادت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، ہمارے ایک دوست جو ایک بڑے روزنامے کیساتھ تھے اس وقت ہمارے ساتھ تھے اور بعد میں انکی گاڑی میں ٹائم بم رکھ کر انہیں شہید کیا گیا. اللہ مغفرت کرے انہیں بھی سوال پوچھنے کی بڑی عادت تھی.خیر ان کی پوری ہوگئی تھی اپنا بھی جب دانہ پانی ختم ہوگا تو چلے جائیں گے.لیکن سوال تو ہم ہر حال میں کرینگے .. چاہے حکمران ہو ، اپوزیشن ہو یا کوئی ، ا س صورتحال میں یا برداشت کریں یا پھر جواب دیں .. کیونکہ جواب تو ہر ایک نے دینا ہے میں نے بھی آپ نے بھی حکمرانوں نے اور اپوزیشن نے بھی ، اور یہ ہر حال میں ہوگا...
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499304 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More