راجیو گاندھی سپر اسپیشلیٹی اسپتال کے منیجنگ ڈائریکٹر ،
ڈاکٹر بی ایل شیروال نے دہلی میں کورونا کے اچانک پھیل جانے کی وجہ یہ
بتاہی دی کہ مجموعی طور پر ، زیادہ اموات سردیوں میں ہوتی ہیں۔ یہ فرق
کووڈ- 19 سے ہونے والی اموات کے معاملے میں بھی دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا
کہ لاک ڈاؤن کو ختم ہونے سے پہلے بیشتر نوجوان متاثر ہو رہے تھے مگر
پابندیوں میں نرمی اور تہوار کے موسم میں بزرگوں کے اندر وائرس تیزی سے
پھیل گیا مگریعنی اس کے سبب بیشتر اموات بزرگوں اور سنگین بیماریوں میں
مبتلا لوگوں کی ہوئی ۔ اس پر چونکہ سیاست کرنا مقصود نہیں تھا اس لیے کسی
سیاسی جماعت یا میڈیا نے ان وجوہات کا مزید پوسٹ مارٹم نہیں کیا ۔ لاک ڈاون
کے بعد مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان آیا جس میں عام طور پر مساجد اور
بازاروں میں کافی چہل پہل ہوتی ہے۔ اس دوران کورونا کے مریضوں کی تعداد میں
اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے بعد عیدالفطر آئی ملت نے احتیاط کے ساتھ عید منائی
اور وہ بھی سکون سے گزر گئی ۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر امت نے احتیاط ملحوظ
خاطر رکھتے ہوئےقربانی کا فریضہ ادا کیا کورونا نہیں پھیلا۔ اس بار محرم
میں بھی مسلمانوں نے عاشورہ کے جلسہ جلوس کو مؤخر کردیا حالات قابو میں
رہے۔ ربیع الاول میں میلادالنبی کے اجتماعات و جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اہل اسلام نے ضبط سے کام لیتے ہوئے علامتی جلوس اور آن لائن اجتماعات پر
اکتفاء کیاتاکہ خود کے ساتھ دوسروں کو بھی وباء سے محفوظ رکھا جائے ۔
اس کے بعد جب نواراتری آئی تو بے احتیاطی بڑھی ، دسہرہ نے اس میں اضافہ
کیا اور دیوالی میں تو لوگ آپے سے باہر ہوگئے ۔ ڈاکٹر شیروال کا اشارہ اسی
جانب ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پوری ہندو قوم کو اس کے لیے موردِ الزام
ٹھہرایا جائے گا؟ اور یہ نہیں بتایا جائے گا کورونا کے معاملہ میں کس طبقہ
کا رویہ معقول ہے اور دانشمندانہ ہے کون لوگ اپنے بے قابو ہوکر اپنا اور
دوسروں کا نقصان کررہے ہیں ؟ اس کو کسی سازش سے ہر گز نہ جوڑا جائے لیکن
حقیقت تو سامنے آئے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کے سابق ڈائریکٹر جنرل
این کے گنگولی نے مانا کہ ابتدائی مہینوں کے مقابلے میں اموات کے واقعات کا
ڈیٹا بہتر طور پر جمع کیا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو مرنے والوں کی ’ٹریکنگ
‘ کرکے یہ پتہ لگانا چاہیے کہ ان میں سے کتنے لوگ کس مندر میں پوجا ارچنا
کے لیے گئے تھے اور ان کے ذریعہ کتنے لوگوں کو کورونا نے دھر دبوچا۔ ان
عبادتگاہوں کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہونا چاہیے جو مرکز تبلیغ کے ساتھ ہوا
تھا ۔ ان مندروں کے پجاریوں کی بھی تفتیش ہونی چاہیے اور ان پر وہی مقدمہ
درج ہونا چاہیے جو مولانا سعد پر قائم کیا گیا۔
انصاف کا تقاضہ تو یہی ہے کہ سب سے کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔سب کو
یکساں انصاف دینے کی بات آتی ہے تو یکساں سول کوڈ کے حامیوں کی نانی
مرجاتی ہے۔ دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نےحال میں فرمایا کہ قومی
دارالحکومت میں کووڈ- 19 کی اموات کی شرح قومی اوسط سے قدرے زیادہ ہے۔
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیوں زیادہ ہے ؟ یہ وہی جین صاحب ہیں جو ابتدائی
ایام میں ہر روز شام کو دہلی کے اعدادو شمار بتانے کے لیے نامہ نگاروں سے
خطاب کرتے تھے اور یہ ضرور بتاتے تھے کہ کورونا پوزیٹیو مریضوں میں تبلیغی
جماعت سے وابستگان کی تعداد کتنی ہے ؟ان کو کہا ں کہاں سے حراست میں لیا
گیا ہے؟ ان میں سے کتنے لوگوں کو قرنطینہ میں کہاں رکھا گیا ہے؟ حالانکہ اس
تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں تھی لیکن چونکہ ایک خاص طبقہ کو ذمہ دار ٹھہرا
کر اپنی کوتاہی چھپانا مقصود تھا اس لیے ہر روز یہ تماشہ کیا جاتا اور پھر
ٹیلی ویژن والے اس کو نمک مرچلگا کر پیش کرتے۔
وہ ناعاقبت اندیش لوگ اس بات سے بے نیاز تھے یہ پروپگنڈا سماج کے اندر کیا
اثرات مرتب کررہا ہے ؟ اس سے کس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بن رہا
ہے اور عام مسلمان کن مشکلات کا شکار ہورہے ہیں؟ ان سب باتوں پر غور کرنے
کے لیے عقل سلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیوان ناطق اس سےبے بہرہ ہوتا ہے ۔
ہمارے میڈیا اور سیاسی رہنماوں کا یہی حال ہے۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں
شریک ہونےوالے صرف 27 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور اس کے
بہانے ملک بھر میں تبلیغی جماعت کے ارکان کی تلاش اور انہیں قرنطینہ کرنے
کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ اس بابت دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے بتایا تھا
کہ پولیس نے ایک ہزار سے زیادہ تبلیغی جماعت کے ارکان کو بسوں سےمنتقل کیا۔
ان میں سے 335 افراد کواسپتال میں داخل کرایا گیا اور باقی افراد کو
قرنطینہ کر دیا گیا۔ ابھی تک دہلی میں پانچ لاکھ اکاون ہزار کورونا کے مریض
آئے ہیں جن میں سے ایک ستیندر جین بھی ہے۔ انہیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ وہ
کس تبلیغی جماعت کے رکن سے رابطے میں آئے تھے؟
ستیندر جین تبلیغی جماعت کے ارکان کی تعداد تو بتاتے تھے لیکن ان کی حالت
زار کو چھپا دیتے تھے۔ وہ تو پہلے متعدد ویڈیوز کے ذریعہ سامنے آئی اور
پھر عدالت میںمقدمہ دوران پتہ چلا ۔ حد تو یہ ہے کہ دہلی میں عام لوگوں کو
14 دن قرنطینہ میں گزارنے کے بعد گھر جانے کی ا جازت تھی مگر نظام الدین
میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز سے تعلق رکھنے والے اراکین کو قرنطینہ مراکز
میں 28 روز کے بعد بھی گھر نہیں جانے دیا گیا ۔ بالآخر 'دہلی اقلیتی
کمیشن' کو دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین کے نام ایک خط لکھ کرپوچھنا پڑا کہ
تبلیغی جماعت کے اراکین کو 28 روز بعد بھی گھر جانے کی اجازت کیوں نہیں دی
جا رہی ہے؟ کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے وزیر صحت سے اپیل کی
تھی کہ تبلیغی جماعت کے جن اراکین کو قرنطینہ مراکز میں رکھا گیا ہے۔ ان
میں سے جن کا کرونا ٹیسٹ منفی آیا ہے۔ ان کو وہاں سے جانے کی اجازت دی
جائے۔
ڈاکٹرظفر الاسلام خان نے اس وقت اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے کہا تھا کہ صحت
کے عالمی ادارے (ڈبلیو ایچ او) نے کرونا کی علامات کے لیے 14 روز کی مدت طے
کی ہے۔ لیکن بیشتر تبلیغی اراکین نے اس کی دوگنی مدت مکمل کر لی ہے۔ انہوں
نے اسے 'غیر ضروری حراست' سے تعبیر کیا ۔تبلیغی جماعت کے ترجمان اور وکیل
شاہد علی خان نے کہا تھا کہ 14 روز کے بعد قرنطینہ میں رکھنا غیر قانونی
حراست ہے اور ہم اس کے خلاف عدالت جا سکتے ہیں۔ اس بارے میں جماعت کے ذمہ
داروں سے مشورہ کیا جارہاہے۔ اس کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ستیندر جین کو ہوش
آیا اور انہوں اطلاع دی کہ جماعت کے جو متاثرین ٹھیک ہو چکے ہیں اور ان کی
قرنطینہ کی مدت بھی ختم ہو چکی ہے، انہیں گھر جانے دیا جائے۔ انہوں نے کہا
کہ ان جماعت والو ں میں سے جن پر بھی مقدمہ ہے ان پر دہلی پولیس کی
کارروائی کرے گی ۔ ان مقدمات کی قلعی تو بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد
بیچ نے کھول دی۔
وہ ایک ایسا زانہ تھا جب ہر داڑھی ٹوپی والے کو کورونا بم سمجھ لیا جاتا
تھا مگر حالات بدل گئے ہیں ۔ اب وہ کیفیت دہلی سے آنے والے ہر شہری کی
ہوگئی ہے۔ پہلے یوگی جی تبلیغی جماعت کے لوگوں کو تلاش کرنے کا فرمان جاری
کرتے تھے اب دہلی سے آنے والوں کو ڈھونڈ کر ان کا ٹسٹ کروایا جاتا ہے۔
دہلی سے اتر پردیش آنے والوں کا کورونا ٹسٹ لازمی ہوگیا ہے ۔ مہاراشٹر نے
دہلی سمیت مختلف ریاستوں سے آنے والے مسافروں کے لیے کورونا کی ٹسٹ رپورٹ
لازم کردی یعنی اب ستیندر جین یا امیت شاہ بھی دہلی سے بغیر کورونا رپورٹ
کے ممبئی میں داخل نہیں ہوسکتے ۔ وہ اگر ایسا کرتے ہیں تو انہیں روک کر
قرنطینہ کردیا جائے گا اور نگیٹیو رپورٹ آنے کے بعد ہی داخلہ کی اجازت دی
جائے گی ۔ یعنی کل تک جو معاملہ تبلیغی جماعت کے ساتھ روا رکھا گیا تھا اب
وہ سارے دہلی والوں پر لاگوہوگیا ہے۔ یہ مکافاتِ عمل ہے کہ جن لوگوں نے
کورونا کے حوالے سے دوسروں کے آنکھوں دھول جھونکنے کی کوشش کی آج وہ دنیا
میں دوسرے نمبر پر اور موت کی بابت تیسرے پر ہیں ۔ وقت تو بدل گیا مگر پھر
بھی فرخ جعفری کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
کوئی ٹھہرتا نہیں یوں تو وقت کے آگے
مگر وہ زخم کہ جس کا نشاں نہیں جاتا
|