خاتون کا شباب قابل دید تھا ،وہ رونق محفل تو نہ تھی ،لیکن
’’جنس زدہ وحشیوں ‘‘کی تسکین کا سامان تھی ،پیسوں کے عوض اپنا آپ ان کے
حوالے کر دیتی اور وہ لوگ اسے نوچ نوچ کر اپنی ہوس پوری کرتے ۔زندگی اسی
آزمائش میں گذر گئیَ ۔عہد شباب سے لے کر بڑھاپے تک کسی نے ’’ماں ‘‘سمجھا یا
بیٹی کا درجہ دیا ۔اور نہ کوئی ایسا ملا کہ جو اسے اپنا شریک سفر بنا لیتا
۔اگرکسی پردیسی نے ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا بھی تو اس نے انکار کردیا ۔یونہی
سفرِ زندگی کٹتا رہا ۔اس کی پرورش کی ذمہ داری ’’خالہ ‘‘کے سپرد تھی ۔خالہ
نے بھی اسے ’’نوٹ‘‘بنانے والی مشین سمجھا۔اسے بھی یہ خیال نہ آیا کہ اس کے
ہاتھ پیلے کیے جائیں ۔بالوں میں سفیدی آ گئی ۔جنس زدہ وحشیوں نے منہ پھیر
لیا ۔اور کئی برس بعد ایک دن اچانک میری ملاقات اس حسینہ سے ہو گئی ۔دیکھا
تو یہ دکان والے سے امداد مانگ رہی تھی ۔بولی اﷲ کے نام پر 10روپے دے دیں ۔میں
دوسری طرف منہ کرکے بیٹھا تھا ۔۔جونہی اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تو
ایک مانوس سی آواز نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔بھائی جی ۔اﷲ کے نام پر 10روپے
دے دو ‘‘۔میں نے پلٹ کر دیکھا تو اس حسینہ کی جوانی کے شب روز میری آنکھوں
کے سامنے گھومنے لگے ۔پوچھا ’’یہ کیا حال بنا رکھا ہے تم نے ،پھر پوچھا کہ
مجھے پہچانا ۔بولی ۔نہیں ۔۔آپ کون ہیں ۔۔؟ تو میں نے اسے یاد دلایا ۔وہ
گھبرا کر بولی ’’کمال ہے آپ نے مجھے ابھی تک یاد رکھا ہوا ہے ۔اور مجھے تو
کچھ بھی یاد نہیں ۔دنیا والوں کی بے حسی اور غربت نے سب کچھ فنا کر دیا ہے
۔ایک موت ہے وہ بھی مجھ سے دور رہتی ہے ۔میں نے پوچھا تمہاری خالہ کاکیا
حال ہے۔۔؟ تو بولی وہ تو 5سال پہلے فوت ہو گئی تھیں ۔انہو ں نے میری کہیں
شادی بھی نہیں ہونے دی ۔اب تو اکیلی ہوں ،اس عمر میں کوئی ہاتھ تھامنے والا
بھی نہیں ۔کہاں جاؤں، کس سے فریاد کروں ۔بس یوں ہی گھوم پھر کر کچھ
دکانداروں سے اﷲ کے نام پر پیسے لے کراپنی ضروریات پوری کر لیتی ہوں ۔میں
بولا ۔مت بھیک مانگا کر ۔۔جب بھی خرچے کی ضرورت ہو مجھ سے لے جایا کر ۔۔بولی
صاحب ! رہنے دیں ۔آپ کتنا میرا بوجھ اٹھائیں گے ۔آپ کے سر پر تو اور بہت سی
ذمہ داریاں ہیں۔مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ۔۔جس نے پیدا کیا ہے وہ ہی میرا
وسیلہ بناتا ہے ۔۔آپ میری مدد کرنا چاہیں تو کر دیا کیجئے ۔مجھے تو آپ سے
مانگتے ہوئے شرم آتی ہے ۔میں اپنے عہدِ شباب کے کسی بھی جان پہچان والے سے
اب نہیں ملتی ،کئی اس دنیا سے جا چکے اور بے شمار بوڑھاپے کی دہلیز پربیٹھے
میری طرح اپنے کرتوتوں کو یاد کرکے پشیمان ہوتے ہیں اور موت کے فرشتے کا
انتظار کر رہے ہیں ۔لیکن قدرت کا اپنا نظام ہے ۔مکافات عمل ہے ۔توبہ کے
دروازے تو کھلے ہیں لیکن حقوق العباد میں کی گئی کوتاہیوں کی سزا تو دنیا
میں ملنا ہے ۔اس سے انسان بچ نہیں سکتا ۔آج میں تنہائی میں اپنا ماضی یاد
کرکے جب روتی ہوں تو آنسوؤں کا ایک نہ تھمنے والا سمندر میری روح تک کو چاٹ
رہا ہوتا ہے ۔سوچتی ہوں کہ کاش ! مجھے اﷲ نے جوانی میں سیدھی راہ دکھائی
ہوتی ،کاش! میری خالہ نے مجھے سیدھے راستے پر ڈالا ہوتا ۔میرے سر کا کوئی
سائبان ہوتا ۔میرے بچے ہوتے اور میں اپنے دکھ سکھ اپنے سرتاج کے ساتھ بانٹ
سکتی ۔بچے میرا سہارا ہوتے ۔اور میں عزت کے ساتھ اپنی حقیقی منزل کی جانب
روانہ ہوسکتی ۔لیکن نہیں اب گذرا ہوا وقت واپس نہیں آ سکتا ۔بس یہی دعا ہے
کہ زندگی کی آخری سانسیں عزت کے ساتھ گذاروں اور لوگ مجھے عزت کے ساتھ رخصت
کر دیں ۔یوں وہ یہ کہہ کر مجھ سے رخصت ہو گئی کہ باؤ جی ! میرے لیے بس دعا
کرنا ۔اﷲ آپ کے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ آمین
|