اسلام میں نکاح آسان کیا گیا ہےاورطلاق کے مرحلے کو مشکل
ترین کام قراردیا گیا ہے۔ باوجود اسکے حالات برعکس ہوتے جارہے ہیں اورنکاح
مشکل کام ہوچکا ہے، طلاق آسان اوراس سے آسان زناہوچکا ہے۔ اس کانسیپٹ کو
سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کیونکہ موجودہ حالات کا سرازنو جائزہ لیا
جائے۔ اب بات کرتے ہیں ہم لئو جہاد کے قانون کی ، ہندوستان کی کئی ریاستوں
میں لئوجہاد کے خلاف قانون بنانے کیلئے بی جے پی کے زیر اقتدارحکومتیں
اقدامات اٹھارہی ہیں اس پر مثبت ومنفی بحث جاری ہے، کچھ سیاسی جماعتیں اس
مدعہ کو زیادہ وزن دے رہی ہیں، کانگریس ودیگر سیکولر جماعتیں اس قانون کے
خلاف ہیںتو بی جے پی اوردوسری سنگھ پریوار سے جڑی ہوئی جماعتیں اورشخصیات
اس قانون کی تائید میں ہیں۔ اب سوال یہ ہےکہ آخر مسلمان اس قانون کو لیکر
اتنے خوفزدہ کیوں ہورہے ہیں؟ ۔دیکھا جائےتو مسلمانوں میں محبت کی شادیوں کا
رواج ہی نہیں ہےاورقرآن پاک میں تو صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ مومن
مردوں کیلئے مومن عورتیں ، صالح مردوں کیلئے صالح عورتیںحلال کی گئی ہیں
اورہرگز بھی ناپاک وغیر مسلم مردوعورتوں سے تعلقات قائم نہ کئے جائیں نہ ہی
انہیں اپنے نکاح میں لیا جائے تو اس سےواضح ہوجاتا ہےکہ مسلمانوں کیلئے
مسلمان مردیا عورت کیلئے غیر مسلم جوڑے جائز نہیں ہیں،ہاں اگر انہیںپہلے
اپنی قوم میں ترجیح دینی ہوگی،اگرمسلم عورت یا مرد نہیں ملتے ہیںتو ان
کیلئے اہل کتاب سے جڑی ہوئی قوموں کو اپنے ازدواج میں لینے کی گنجائش ہے۔
اب ہندوستان میں جو نوجوان عشق کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں نہ انہیںدین معلوم
ہے نہ ہی دنیا داری۔ اپنے نفس پر بے قابو ہوکر جذبات کے بہائو میں آکر یہ
نوجوان محض اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ایک دوسرے کو اپنانے کیلئے تیار
ہورہے ہیں یا ہورہی ہیںتو اس میں مسلمانوں کو زیادہ پریشان ہونے کی کیا
ضرورت ہے۔ ویسے بھی مسلم نوجوانوں کی اگر صحیح تربیت کردی جائے تو وہ غیر
مسلم لڑکیوں کے پیچھے کیوں بھاگنے لگیں گے۔ دراصل مسلم نوجوانوں کو ہم نے
اسلام کے معنی محض نماز، روزہ،زکوۃ اورحج کی ادائیگی تک محدود کردیا ہےجبکہ
اسلام میں مکمل ضابطہ حیات اس دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اگرچہ مسلم
نوجوانوں کو معاشرے میں اس بات کی تربیت دینے کی پہل کی جائےکہ انکے لئے
پاک دامن عورتیں ہیں نہ کہ گائے کا پیشاب پینے والی، کھڑے ہوکر پیشاب کرنے
والی اور گوبر کا لیپ لگانے والی قوم کی لڑکیاں شریک حیات بننے کے قابل ہیں۔
یہ بات اورہے کہ جس نے اسلام کو سمجھا ، اسلام میں آنے کی چاہ سے اسلام
قبول کیا، اللہ کے خوف ومحبت کو دل میں پیدا کیا، رسول اللہ ﷺ کے حیات
مبارکہ کو تسلیم کیا، وہ اگر ایمان میں آتی ہے تو اسکے لئے خودبخود قانون
کی راہیں ہموارہوجاتی ہیںاورانکے لئے بہترین جوڑے بھی مل جاتے ہیں ۔ لیکن
جس لڑکی کیا لڑکے کا مقصدہی جسمانی وجنسی خواہشات کی تکمیل ہو وہ بھلا کیا
محبت کا جہاد کریںگے۔ ایسے میں مسلم سماج کے لوگ جو اس قانون کو لیکر پہ
درپہ سیاست دانوں کے سامنے گوہار لگارہے ہیں ، روروکر التجاء کررہے ہیںکہ
اس قانون سے مسلمانوں کو بچالیں تو سراسرجہالت ہے اسکے سوا کچھ نہیں ہے۔
اعدادوشمارات کا جائزہ لیاجائےتو بہت کم ایسے مواقع ہیں جس میں مسلم لڑکوں
نے غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ شادیاں رچائی ہیں۔کبھی کبھی ہونے والے واقعات
کیلئے اگر حکومت قانون بناتی ہے تو بنانے دیں اس سے کم ازکم مسلم سماج کی
لڑکیوں کی شادیاں تو آسانی سے ہوںگی، کم ازکم شارخ خان، امیر خان، جاہل
خان بننے سے تو بچ جائیںگےاورمسلم سماج میں مزید گئوری،کرن رائو جیسی
عورتیں تو مسلمانوں سے شادی رچاکر اسلام کوبدنام تو نہیں کریںگی ، فاطمہ،
سکینہ، شبانہ کی شادیاں تو اس بہانے آسانی کے ساتھ ہوجائیںگی۔ تعجب ہوتا
ہے مسلم سماج کے ان لیڈروں کے تعلق سے جو شرپسندوں کے شر پر لبیک کہتے ہوئے
ضروری امور کو بھلا بیٹھتے ہیں ۔ آج پھر سے ملک میں این آرسی، سی اے اے
کی آواز اٹھ رہی ہے تو جب مسلمان بھائی ملک کے سڑکوں پر اتر آئے ہیں تو
انکے ساتھ کسان مخالف بل کے ساتھ ساتھ شہریت مخالف بل کا بینر لیکر کھڑے
ہوجائیں تو حکومت کی ہڈیاں ٹوٹ جائیںگی۔ علیحدہ احتجاج کرنے کے بجائے
کسانوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں وہ ان کا درد بیان کریں گے ہم اپنا دردبیان
کریں گےاورجو پیار کرنے والے ہیں وہ مودی جی سے کہیں گے ہم ڈرنے والے نہیں
ہیں۔
|