چھینکنا منع ہے۔۔۔۔

کلاس روم میں بیٹھے بیٹھے اچانک سے چھوٹو کی ناک میں خارش ہوئی اور ایک دم کلاس کے کمرے میں جیسے بھونچال آگیا اور پورا کمرہ "آاچھوو " کی آواز سے گونج اٹھا ۔ بس پھر کیا تھا تمام کلاس کے بچے اس سے ایسے دور ہو گئے جیسے اس سے بد بو آرہی ہو۔ اوراستاد صاحب نے فورا اسے کلاس سے باہر جانے کا حکم جاری کردیا۔ مگر پہلے اس کے ہاتھوں پر الکوحل ملا اسپرے کرنا نہیں بھولے۔ اور پھر اپنے ہاتھوں پر خالص شراب والا سینیٹائزر لگایا ۔بس میں جاتے ہوئے اچانک میرے گلے میں خراش ہوئی اور گلا صاف کرنے کے بہانے میں تھوڑا سا کھانسا اور جب اپنے ارد گرد نظر اٹھائی تو پوری کی پوری بس کے مسافر مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میرے سر پر دو عدد سینگ نکل آئے ہوں۔خدا غارت کرے اس کرونا کو انسان کو جینے بھی نہیں دے رہا۔ پتہ نہیں ایسا کیا ہے کہ ایک خوف، دہشت جو لوگوں کے دلوں اور دماغ میں بٹھا دی گئی ہے، حالانکہ یہ وائرس تو کئی دہائیوں سے ہے بلکہ کئی صدیوں سے موجود ہے ۔ نزلہ ،زکام، کھانسی، بخار جیسی علامات تو پتہ نہیں کب سے چلی آرہی ہیں۔ اور اس کے علاوہ سب کو پتہ ہے کہ یہ ایک وائرس ہے جس کا زندگی کا دورانیہ سات سے پندرہ دن کا ہوتا ہے اور اس کے بعد یہ خود بہ خود ختم ہو جاتا ہے۔ اور اس کے لیے احتیاط تو ہوتی ہے مگر علاج نہیں۔ تو پھر آج انسان میں اتنی دہشت، اتنا خوف پیدا کرنے کی کیا ضرور ت ہے۔

پہلے چھینک آتی تھی تو ہمیں یہ سکھایا جاتا تھا کہ جب بھی چھینک آئے تو کہو"الحمداللہ" اور سننے والا کہے "یرحمک اللہ" اور چھینکنے والا پھر اس کا جواب دے۔ مطلب پوچھنے پر یہ بتایا گیا کہ شیطان کا ٹھکانہ ناک میں موجود گندگی ہوتی ہے اس لیے جب چھینک آتی ہے تو شیطان بھاگ جاتا ہے یعنی ناک کی گندگی صاف ہو جاتی ہے، اسی لیے اس پراللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور اگر بار بار چھینکیں آرہی ہیں تو پھر نزلہ،زکام ہوا ہے اور نزلہ کو بہنے دو ورنہ دماغ پر جم جائے گا اور بال جلدی سفید ہو جائیں گے۔ کوئی دوائی لینے کی ضرورت نہیں بس جوشاندہ پی لو ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ تو بزرگوں کی باتیں ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان میں کتنی سچائی ہے مگر دعائیں تو اسلام ہمیں سکھاتا ہے اور احادیث کی روشنی میں یہ دعائیں سکھائی جاتی ہیں ۔ پھر مسلمان اس موذی وائرس سے اتنا خوفزدہ کیوں ؟۔

یوں تو حالات بہتر ہو رہے ہیں مگر اب حالات کے بہتر ہونے سے بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ عادت سی ہو تی جارہی ہے اب تو ان حالات کی۔کوئی محفوظ نہیں، سبھی کوخطرہ ہے کس سے مگر معلوم نہیں۔ ہر کوئی ڈر رہا ہے کیوں معلوم نہیں۔کوئی کچھ بولنے کے قابل نہیں۔ کوئی کسی کو سننا پسند نہیں کرتا ۔ سب ایکدوسرے کی دیکھا دیکھی اس دوڑ میں بھاگ رہے ہیں۔کہاں جانا ہے کسی کو نہیں پتہ۔ اصلاح سب کو کرنی ہے مگر اپنی نہیں دوسروں کی۔ اس کرونا کے منظر نامے میں ہمارے دماغوں میں ایک ایسا ڈر پیدا کیا جا رہا ہے جس کو نکالنا ہماری آنیوالی نسلوں کے لیے بھی آسان نہیں ہوگا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھی دجال کی آمد کی تیاری ہے کیونکہ وہ کئی بیماریوں کا علاج کرے گا جو کہ لاعلاج ہونگی۔ وللہ اعلم

مگر مجھے حیرت مسلمانوں کے طرز عمل پر ہوتی ہے کیونکہ یہ تو اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے کہ بیماری پیدا ہونے سے پہلے اس کا علاج دنیا میں بھیجا جاتا ہے ۔ انسان اسے کھوجنے میں ناکام رہے تو اور بات ہے مگر لا علاج مرض اس دنیا میں صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے موت۔ اس لیے اگر ہم کسی کے چھینکنے یا کھانسنے سے ڈرنے کی بجائے اپنی موت کو یاد کر کے اپنی اپنی اصلاح کر لیں ، توبہ کر لیں، اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں، اپنے فرائض کو دل جمعی سے سر انجام دیں، برائیوں سے اجتناب کر لیں، ایکدوسرے کا ہر دکھ تکلیف میں ساتھ دیں، سنتوں کو عام کریں تو شاید کسی کو بھی یوں منہ چھپا کے پھرنے کی ضرورت نہ رہے اور کوئی کسی کو چھینکنے پہ یہ نہ کہے کہ بھائی اپنا کورونا ٹیسٹ کراو۔۔۔
نوٹ: یہ کالم سب سے پہلے ایکسپریس پہ شائع ہوا۔
 
Muhammad Kamran Khakhi
About the Author: Muhammad Kamran Khakhi Read More Articles by Muhammad Kamran Khakhi: 27 Articles with 19069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.