کورونا میں کرنے کے کام

کوروناکاعالمی بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔کوروناوائرس کی کاپھیلاؤکسی بھی اعتبارسے کوئی ایسی حقیقت ثابت نہیں ہوا جسے نظر انداز کردیاجائے۔ اس نے ایک اورمعاملے کوخاصابے نقاب کردیاہےاوروہ ہے انتہائی لبرل گھرانوں میں بھی جنس یاصنف کی بنیاد پرمحنت کی تقسیم۔ ہو سکتاہے کہ وباکے ختم ہوجانے پربھی اس معاملے کی گردنہ بیٹھے۔امریکااوریورپ میں وائٹ کالر جاب کرنے والوں کی غالب اکثریت کوبیروزگاری کے علاوہ صحتِ عامہ کے بحران سے بھی بچالیا گیاہے۔انہیں ویسی غیریقینی صورتِ حال کاسامنانہیں کرناپڑرہاجیسی کم اجرت پرکام کرنے والوں کودرپیش ہے۔بہت سوں کو یہ سہولت میسررہی کہ گھربیٹھے کام کریں۔وائٹ کالرجاب کرنے والوں نے کوروناکی کے شدید لمحات میں گھرسے کام کرکے خوب کمایاہے اوربیروز گاری کے عذاب کوٹالنے میں خاطرخواہ حدتک کامیابی حاصل کی ہے۔آن لائن کام کرنے والوں کودیکھ کر وہ لوگ مزیدالجھ گئے جولاک ڈاؤن کے باعث اپنی کم اجرت والی روایتی قسم کی نوکریوں پرنہیں جاسکتے تھے۔

بہت سے گھرانوں میں چولہاجلتارکھنے کیلئےخواتین کاکام کرنابھی لازم ہے۔انہیں دگنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ایک طرف وہ ملازمت کرتی ہیں اوردوسری طرف کام پرسے تھکی ہاری گھرآنے پربچوں کی دیکھ بھال میں بھی مصروف رہتی ہیں۔لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کی کارکردگی کمزور رہی اوراس کے نتیجے میں ان کی پیداواری صلاحیت شدیدمتاثرہوئی۔معروف جریدے “نیچر”نے ایک سروے کے نتائج کی روشنی میں بتایاہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران مرداسکالرزکی کارکردگی پرکچھ خاص فرق نہیں پڑاجبکہ خواتین اسکالرزکی کارکردگی شدیدمتاثرہوئی اوران کے مقالوں کی تعدادنمایاں طورپرگھٹ گئی۔ایسانہیں ہے کہ صرف وہی خواتین پروفیشنلزکارکردگی کے معاملے میں گراوٹ محسوس کرتی ہیں جنہیں کام سے واپسی پرگھر کے معاملات دیکھنے ہوتے ہیں اوربالخصوص بچوں کی دیکھ بھال پرمتوجہ ہوکرآرام وسکون برباد کرناپڑتاہے۔جن خواتین پر بچوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی وہ بھی کام اوراس کے نتائج میں گراوٹ ہی محسوس کرتی ہیں۔

کوروناکے پھیلاؤاوراس کے تدارک کیلئےنافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے دوران ان امریکی والدین کیلئےپریشانی کچھ کم رہی جن کے بچے بڑے ہو چکے ہیں۔انہیں کام کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیکھ بھال کافریضہ بھی انجام نہیں دیناتھا۔لاک ڈاؤن کے دوران امریکابھرمیں والدین کوبہت سی دوسری یومیہ پریشانیوں سے بھی نجات ملی۔انہیں بچوں کواسکول پہنچانے اورواپس لانے کے دردِسرسے چھٹکاراملا۔ساتھ ہی ساتھ بچوں کوروزانہ کھیلوں کی مشق کیلئےلےجانے کاجھنجھٹ بھی ختم ہوا۔یورپ اورایشیا کے برعکس امریکامیں لڑکوں اورلڑکیوں کوکھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئےٹرانسپورٹ کی سہولت آسانی سے نہیں ملتی ۔ایسے میں والدین کوآگے بڑھ کریہ ذمہ داری نبھانی پڑتی ہے۔کبھی کبھی یہ ذمہ داری خواتین کوقبول کرناپڑتی ہے۔بچوں کو کہیں چھوڑنااوروہاں سے واپس لاناملازمت پیشہ خواتین کیلئےغیرمعمولی نوعیت کی ذمہ داری ہے ،جواُن کی صلاحیتوں اورپیشہ ورانہ کارکردگی پربھی اثر اندازہوتی ہے۔بیشترملازمت پیشہ خواتین ایسی ملازمت تلاش کرتی ہیں جنہیں وہ اپنے بچوں کی ذمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ نبھاسکیں۔

مضبوط مالی حیثیت کے حامل جن والدین نے اپنے بچوں کیلئےکسی بڑی جامعہ میں داخلے کامنصوبہ تیارکررکھاتھا،انہیں کورونا کی روک تھام کے لئےنافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن سرگرمیوں کے حوالے سے خاصامصروف رہناپڑا۔لاک ڈاؤن کے دوران تعلیمی وتدریسی سرگرمیاں چونکہ آن لائن رہیں اس لیے بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کوبھی اس حوالے سے مصروفیت کاسامناکرناپڑا۔بیشتروالدین بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کوعمدگی سے جاری رکھنے میں مدددینے کیلئےہمہ وقت تیار اورمصروف دکھائی دیے۔اس صورتِ حال کا ایک نتیجہ تویہ بھی برآمدہواکہ والدین کیلئے گھرپررہنالازم ہوگیا۔اسکولوں کی بندش کے باعث بچے چونکہ گھرپرتھے اورانہیں پڑھنے کیلئےوالدین کی مددبھی درکارتھی اس لیے والدین کیلئےبھی گھر سے باہرکی سرگرمیاں محدودکرنالازم ہوگیا۔یہ گویاوالدین کیلئےگھرکوزیادہ وقت دینے کااچھا بہانہ ثابت ہوا۔

جب صحتِ عامہ کابحران موجودہوتووالدین پربچوں کی مددکیلئےکسی بھی مشقت کابوجھ محسوس نہیں ہوتا۔انٹرنیٹ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اورمثبت طور پرمصروف ہونے کے اوربھی بہت سے جسمانی اورروحانی آپشن موجودہوتے ہیں۔اب امریکامیں کوروناکی کمزورپڑتی جارہی ہے۔ ایسے میں ملازمت پیشہ ماؤں پردباؤکم ہوتاجارہاہے۔وہ کام پرجانے اوربچوں کواسکول یاکسی اورجگہ لے جانے اورلانے کے معمول کی طرف بھی لوٹ رہی ہیں اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کے مزاج میں نرمی، شائستگی اورسکون واضح طورپرمحسوس کیاجاسکتاہے۔کوروناسے ایک کام اوربھی ہوا۔اسکول جانے والے بچوں کو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے پرمائل کرنے کی تحریک اب کمزورپڑتی جارہی ہے۔اب تووالدین بھی پبلک ٹرانسپورٹ کااستعمال کم کرنے پرمتوجہ ہیں۔ ایسے میں یہ کہاں سوچاجاسکتاہے کہ وہ بچوں کوایساکرنے کی تحریک دیں گے۔جب تک کوروناپر مکمل قابو نہیں پالیا جاتا تب تک پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کم سے کم ہی رہے گا۔

کوروناکے دوران والدین نے بچوں کومثبت،تعمیری اورصحت مندسرگرمیوں میں مصروف رکھنے پرزیادہ توجہ دی ہے۔یہ رجحان بیشترخطوں میں دکھائی دیاہے۔کم وبیش چارماہ تک گھروں تک محدودرہنے کی صورت میں یہ بھی ہواکہ والدین نے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پربھی توجہ دی۔اب والدین چاہتے ہیں کہ بچے زیادہ سے زیادہ سیکھیں۔کوروناکی روک تھام کے نام پرنافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے والدین کوسکون کاسانس لینے کا موقع بھی توفراہم کیاہے۔ان کی اپنی سرگرمیاں بھی گھٹی ہیں اوربچوں کی نقل وحرکت بھی گھٹی ہے۔عمومی توقع یہ ہے کہ یہ رجحان کوروناکے مکمل خاتمے کے بعدبھی جاری رہے گا۔امریکااوردیگرترقی یافتہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ پرزیادہ فنڈنگ کی تحریک چلانے سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگاکہ معاشرتی تقسیم گھٹے گی اورمختلف طبقوں کے لوگ زیادہ آسانی سے مل کرمختلف تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں گے۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 362006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.