مخلوق خدا کے لئے آسانیاں اور مدد کے لئے تیار رہنے
اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے کسی کے کام آنے والے کو رضا کار کہا
جاتا ہے ، پاکستان سمیت دنیا بھر میں1985 سے 5دسمبرکوبین الاقوامی رضاکاروں
کے دن کے طور پرمنایا جاتا ہے ،غیر سرکاری تنظیمیں ہلال احمر،سکاؤٹ تحریک ،
گرلز گائیڈ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے اس دن کو منانے کا خصوصی اہتمام
کیا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد یہ آگہی دینا ہوتا ہے کہ رضاکار کس طرح
لوگوں کو مشکل صورتحال سے نکالتے ہیں،موجودہ صدی میں وطن عزیزپاکستان سمیت
دنیا بھر میں جو نام اور مقام بطور رضاکارمولانا عبدالستار ایدھی کو حاصل
ہوا وہ اور کسی کے حصے میں نہیں آیا ، عام طور پرزلزلہ زدہ علاقوں، سیلابی
علاقوں اور جنگوں میں رضا کاروں کی خدمات قابل تعریف تو نظر آتی ہی ہیں
لیکن وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر رضاکاروں کا کردار انتہائی اہمیت اختیار
کرجاتا ہے ،رضا کاروں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی زندگی ،
اگر گزشتہ چند صدیوں میں وبائی امراض کے دوران رضاکاروں کی بے لوث خدمات کا
ذکر کیا جائے تو ایک کالم انکے لئے کم پڑ جائے گا ،دسمبر 2019سے تا دم
تحریر کرونا وائرس سے پھوٹ پڑنے والی وبا کے دوران بھی رضاکاروں کی خدمات
قابل ستائش رہی ہیں ،دنیا بھر کی طرح وطن عزیز پاکستان میں سینکڑوں سماجی
تنظیموں سے منسلک رضا کار قابل قدر خدمات سرانجام رہے ہیں ،8اکتوبر2005 کو
آزاد کشمیر اور شمالی علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلہ کے بعد ہزاروں
رضاکار میدان میں آئے اور بلامعاوضہ اپنی خدمات فراہم کر کے اپنانام تاریخ
میں رقم کروایا ،سانچ کے قارئین کرام !وطن عزیز پاکستان کے قیام کے
بعد1947میں بانٹوا (ہندوستان )سے ہجرت کر کے کراچی میں آکر آباد ہونے والے
عبدالستار ایدھی کو کون نہیں جانتا آپ نے 1951میں اپنی جمع پونجی سے ایک
دوکان خریدی جس میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے ڈسپنسری کھولی جہاں آپ دن بھر
خدمات فراہم کرنے کے بعدرات کوڈسپنسری کے میز پر ہی سو جاتے تا کہ بوقت
ضرورت کسی مریض کو میسر ہوسکیں1957میں کراچی میں فلو کی وباء پھوٹی تو
ایدھی نے فوری مختلف علاقوں میں خیمے لگوا کر مدافعتی ادویات کی مفت فراہمی
شروع کی اور عوام سے چندے کی اپیل کی، شروع میں کراچی اور بعد میں پورے
پاکستان سے چندہ ملنا شروع ہوا مخیر حضرات نے ان کی دل کھول کر امداد کی،
امداد کی رقم سے انہوں نے عمارت خریدی اور وہاں نرسوں کی ٹریننگ کا آغاز
کیا ،یہ ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ثابت ہوا عبدالستار ایدھی خود کہتے ہیں کہ
میں کبھی پڑھا تو نہیں لیکن مارکس اور لینن کی کتابیں پڑھی ہیں ،کربلا
والوں کی زندگی پڑھی ہے،میں تمہیں بتاتا ہوں اصل جنگ کس کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اصل
جنگ امیر اور غریب کی ہے ظالم اور مظلوم کی ہے،عبدالستار ایدھی نے اپنی
پوری زندگی صرف انسانیت کا درس دیا،سانچ کے قارئین کرام ! گینز بک آف ورلڈ
ریکارڈ کے 1997کے عداد و شمار کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس
دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے اور عبدالستار ایدھی بغیر کوئی
چھٹی کیے اپنا کام سر انجام دینے والے واحد شخص تھے ،ہسپتال اور ایمبولینس
کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے بچوں کے لیے سکول،لاوارث سینٹر،یتیم خانے،بلڈ
بنک اور معذوروں کے لیے گھر اور بے پناہ مقامات پر پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں
عبدالستار ایدھی کا ایک خواب تھا کہ وہ ہر 500کلومیٹر کے بعد ایک ہسپتال
تعمیر کروائیں جس کے لئے ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی اس مشن کو آگے لے کر چل
رہے ہیں ، 8جولائی2016 کو آپ 98برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے ،مولاناعبدالستار
ایدھی کی آخری وصیت کے مطابق ان کی آنکھیں عطیہ کی گئیں ان کا نماز جنازہ
کراچی میں پڑھایا گیا جس میں اس وقت کے وزیر اعظم،وزیراعلیٰ،چیف آف آرمی
اسٹاف سمیت ملک کی تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے شرکت کی عبدالستار
ایدھی کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا 31مارچ 2017کو ایدھی کو
خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے 50روپے کا سکہ جاری
کیا حکومت پاکستان کی جانب سے زبر دست خراج عقیدت پیش کیا گیا اور گوگل نے
بھی ایدھی کو خراج عقیدت پیش کیا عبدالستار ایدھی کی جگہ کوئی اور تو نہیں
لے سکتا لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کو ان کی اہلیہ بلقیس
ایدھی اور بیٹے فیصل ایدھی ان کے مشن کو جاری رکھیں گے،سماجی خدمات میں ایک
اور بڑا نام ڈاکٹر روتھ فاؤکا ہے جو نو ستمبر انیس سو انتیس کو جرمن شہر
لیپزگ میں پیدا ہوئیں انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں پاکستان آکر جذام کے مرض
پر قابو پانے کیلئے بے لوث خدمات سر انجام دیں،ان کی کوششوں کی بدولت انیس
سو چھیانوے میں پاکستان جذام کے مرض سے پاک ہونے والا پہلا ایشیائی ملک بن
گیا،انہوں نے’’ میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر ‘‘قائم کیا اور محبت اور خلوص
کے ساتھ جذام کی بیماری میں مبتلا مریضوں کی خدمت کی جس زمانے میں پاکستان
میں جذام کے مریضوں کو آبادی سے باہر منتقل کر دیا جاتا تھا اور ان کے اپنے
گھر والے بھی ان کے ساتھ رہنے کو گوارہ نہیں کرتے تھے، ایسے زمانے میں
ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنے ہاتھوں سے ان مریضوں کی مرہم پٹی بھی کرتیں اور دوا
بھی کھلاتی تھیں، جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر روتھ فاؤنے
پاکستان کے دور افتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو
تربیت دی ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے انہیں انیس سو
اٹھاسی میں پاکستان کی مستقل شہریت سے نوازا،انہیں ’پاکستانی مدر ٹریسا‘
بھی کہا جاتا ہے، سانچ کے قارئین کرام ! اس کے علاوہ بے شمار نام ہیں جو
پاکستان بھر میں سماجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جنھیں رضاکاروں کے عالمی
دن کے موقع پر سلام پیش کرتے ہیں ٭
|