#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰیت 90 تا 92
مُوسٰی کی تاریخی فتح اور فرعون کی تاریخی شکست !! ازقلم.......
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وجٰوزنا
ببنی اسرائیل
البحر فاتبعھم فرعون
و جنودہ بغیا عدوا حتٰی
اذاادرکہ الغرق قال اٰمنت انہ لا
الٰہ الا الذی اٰمنت بہ بنوااسرائیل وانا
من المسلمین 90 آلئٰن وقد عصیت قبل و
کنت من المفسدین 91 فالیوم ننجیک ببدنک
لتکون لمن خلفک اٰیة وان کثیرا من الناس عن اٰیٰتنا
لغفلون 92
بنی اسرائیل کو جس سمندر کے جس کم آب راستے سے گزار کر ھم ایک کنارے سے
دُوسرے کنارے کی طرف بڑھا رھے تھے تو فرعون بھی اپنے لَشکر کے ساتھ اُسی
سمندر کے ایک پُرآب راستے سے بنی اسرائیل کے تعاقب میں چل نکلا تھا یہاں تک
کہ جب فرعون اور اُس کے لَشکر کو اَمواجِ سمندر نے گرفت میں لے لیا تو
فرعون کو اللہ کے اختیار اور اپنی بے اختیاری کا اندازہ ہوا اور اُس نے کہا
میں بھی اُس اللہ پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لاۓ ہیں ،
اِس لیۓ مُجھے بھی اُن ہی اَمن و سلامتی پانے والے لوگوں کی طرح اَمن و
سلامتی دی جاۓ اور اللہ نے فرعون کی یہ آخری پُکار سُن کر کہا کہ تُو تو
موت کے اِس چُنگل میں آنے سے پہلے نافرمانی پر نافرمانی کرتے ہوۓ زمین میں
فتنہ و فساد پھلا رہا تھا لیکن اَب موت کو سامنے پاکر تُجھے ایمان و سلامتی
کا خیال آگیا ھے تو اِس وقت ھم تیری جان تو ضرور لیں گے مگر تیرے جسم کو
بھی ضرور بچالیں گے اور تیرے اسی جسم کو تیرے جانشینوں کے لیۓ نشانِ عبرت
بھی بنادیں گے تاکہ تیرے بعد آنے والے تیرے وہ جانشین تیرے نَقشِ قدم پر نہ
چلیں حالانکہ ھم جانتے ہیں کہ دُنیا کے کم کم لوگ ہی ھماری اِن نشانیوں سے
عبرت حاصل کرتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں مُوسٰی علیہ السلام کی تحریکِ آزادی اور قومِ مُوسٰی کی
آزادی کا جو واقعہ بیان ہوا ھے یہ مُوسٰی علیہ السلام کی قومی آزادی کی اُس
تحریک کا آخری حصہ ھے جس تحریک کے مُبتدا و مُنتہٰی کے کُچھ واقعات
سُورةُالبقرة کی اٰیت 40 سے لے کر اٰیت 96 تک ، کُچھ واقعات سُورةُالاَعراف
کی اٰیت 160 سے لے کر اٰیت 171 تک ، کُچھ واقعات سُورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 77
سے لے کر اٰیت 79 تک اور کُچھ واقعات قُرآنِ کریم کے دیگر مقامات پر بھی
بیان ہوۓ ہیں لیکن اِس وقت ھمارے پیشِ نظر قُرآن کے یہی تین مقامات ہیں جن
کا ھم نے ذکر کیا ھے اور اِن تین مقامات میں سے بھی سُورَہِ طٰہٰ کا وہ
تیسرا مقام ھمارے لیۓ زیادہ قابلِ توجہ ھے جس میں سمندر کے اُس مقام کی
نشان دہی کی گئ ھے جس مقام سے اللہ نے مُوسٰی علیہ اسلام کو گزرنے کا حُکم
دیا تھا اور جس مقام سے مُوسٰی علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر گزرے تھے اور
اٰیاتِ بالا کا مفہومِ بالا مُتعین کرتے وقت بھی ھم نے سُورَہِ طٰہٰ کی اُن
تین اٰیات کو پیشِ نظر رکھا ھے جن میں اللہ نے یہ ارشاد فرمایا ھے کہ {
واوحینا الٰی موسٰی ان اسر بعبادی فاضرب لھم طریقا فی البحر یبسا لا تخف
درکا ولا تخشٰی ، فاتبعھم فرعون بجنودہ فغشیھم من الیم ما غشیھم ، واضل
فرعون قومہ وما ھدٰی } یعنی ھم نے مُوسٰی کو وحی کر کے بتایا کہ تُو راتوں
رات میرے بندوں کو لے کر سمندر میں بنے خُشک راستے پر چلتا چلا جا ، اِس
راستے پر قدم رکھنے کے بعد تُو دُشمن کی پکڑ کے خوف سے آزاد ہو جاۓ گا ،
پھر مُوسٰی کے نکلنے کے بعد فرعون نے اپنے لَشکر کے ساتھ اُن کا تعاقب کیا
تو سمندر اُس پر چھاجانے کی طرح چھا گیا اور فرعون نے اپنی قوم کو اِس لیۓ
مروا دیا کہ وہ اپنے لَشکر کو وہ خُشک راستہ نہ دکھا سکا جو سمندر میں سال
بہ سال جوار بھاٹا کے ایسے موسموں میں ظاہر ہوتا رہتا ھے جس کی وجہ یہ ہوتی
ھے کہ سمندر اپنے موسمی راستے بدلتے ہوۓ بہت سے مقامات پر چڑھ جاتے ہیں اور
بہت سے مقامات پر اپنی طغیانیوں کو سمیٹ کر زمین خالی کر دیتے ہیں ، بنگلہ
دیش سمیت دُنیا کے کئ ملکوں میں سال بہ سال سمندر کے چڑھنے اور ڈھلنے کے یہ
مناظر رُونما ہوتے رہتے ہیں ، اللہ نے مُوسٰی علیہ السلام کو سمندر پار
کرنے کے لیۓ سال کے ایک خاص موسم میں پانی سے خالی ہونے والے ایسے ہی ایک
خاص راستے کی نشان دہی کی تھی جس سے وہ کامیابی کے ساتھ گزر گۓ اور فرعون
بَہٹک کر اپنے لَشکر سمیت دریا بُرد ہو گیا اور اللہ نے اُس کے وجُود کو
اہلِ جہان کے لیۓ نَقشِ عبرت بنا دیا ، اِس سُورت کی اٰیت 87 میں اللہ
تعالٰی نے مُوسٰی و ھارون کو تاحُکمِ ثانی اپنے گھر کو اپنی آزادی کی تحریک
کے لیۓ پیغام رسانی کا مرکز بنانے اور اَجنبی لوگوں سے دُور رہنے کا جو
حُکم دیا تھا اُس کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ یَکسُو ہو کر اُن دنوں کا
انتظار کریں جن دنوں میں سمندر اللہ کے حُکم کے مطابق زمین کے کُچھ حصوں کو
نگل لیتے ہیں اور کُچھ حصوں کو اُگل دیتے ہیں اور جب وہ دن آگۓ تو مصر سے
نکلنے کے لیۓ اللہ کا وہ حُکم بھی آگیا ھے جس پر عمل کر کے وہ سمندر کے ایک
خُشک راستے پر چلتے ہوۓ ایک خُشک کنارے سے دُوسرے خُشک کنارے تک جا پُہنچے
اور عین ممکن ھے کہ سمندر کے جس پانی اُترے ہوۓ مقام سے مُوسٰی علیہ السلام
گزرے تھے ٹھیک اُسی مقام سے فرعون بھی گزرا ہو اور عین اُس وقت سمندر نے
اپنی اُگلی ہوئ زمین کو دوبارہ نگل لیا ہو جس وقت فرعون اور لَشکرِ فرعون
کا وہاں سے گزر ہوا ہو ، آخر سمندر کے زمین اُگلنے اور نگلنے کے اتنے ٹھیک
ٹھیک وقت کو اللہ کے سوا کون جانتا ھے اور کون جان سکتا ھے ، اہلِ روایت کے
روایتی خیال کے مطابق مُوسٰی علیہ السلام کے سمندر پار کرنے کے بارے میں
مُسلمانوں کے ایمان و یقین کی تَقلیدی صورت یہ ھے کہ مُوسٰی علیہ السلام کے
سمندر پار کرنے میں کوئ فطری قوانین اور کوئ اَسباب و علل موجُود نہیں تھے
بلکہ یہ مُوسٰی علیہ السلام کا ایک پیغمبرانہ معجزہ تھا جو ان سے سرزَد ہوا
تھا لیکن تحقیقی صورتِ حال وہی ھے جو ھم نے عرض کی ھے ، مُوسٰی علیہ السلام
کی تاریخی فتح اور فرعون کی تاریخی شکست کا یہ واقعہ 2513 قبل مسیح میں اُس
وقت وقوع پزیر ہوا تھا جب مُوسٰی علیہ السلام مصر کے دارالحکومت " رامیس "
سے اپنی قوم کے ساتھ نکلے تھے اور سمندر عبور کرنے کے بعد اُس کے دُوسرے
کنارے کے مقامِ " سکوت " میں پُہنچے تھے اور ایک عرصے تک آپ نے وہاں پر
قیام کیا تھا !!
|