عورت کا مقام اور ہمارا معاشرہ

 ناظم الرحمن سندرانہ
ہمارے معاشرے میں آج ہر طرح سے ذلیل و خوار ہونے کے لیے صرف عورت ہی کیوں رہ گئی ہے۔کیا عورت ہونا کوئی سنگین جرم ہے، یا گناہِ کبیرہ،عورت ہونا خاندان کی بدنامی ہے،یاعورت ہونا معاشرے کا ناسور، اسلام تو عورت کو بہت عظیم کہتا ہے۔اسلام میں عورت کا ایک الگ مقام و مرتبہ ہے۔یہاں میں عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافی، ظلم اور تشدد پر لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

کیونکہ میری ماں ایک عورت ہے،میری بہن ایک عورت ہے۔میری بیوی ایک عورت ہے،کل کو جب میری بیٹی ہوگی تو وہ بھی ایک عورت ہوگی، لیکن دوستو میں عورت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ایک جھلک ماضی سے دِکھا کر آج کے دور میں آنا چاہتا ہوں۔

عورت جو ایک چراغ خانہ تھی وہ شمع محفل کیوں اور کیسے بنی،قدیم تہذیبوں میں جو سب سے زیادہ مہذب قوم سمجھی جاتی تھی،وہ اہلِ یونان تھے۔ قومِ یونان کی نظر میں عورت ایک ادنیٰ درجے کی مخلوق تھی۔ تمدنی ارتقا ء کے ابتدائی مراحل میں طرزِ عمل تھوڑی سے ترمیم کے ساتھ برقرار رہا۔ عِصمت فروشی یونانی سوسائٹی کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقوں تک ہر ایک کے لیے مرکز بنا ہوا تھا۔’’کام دیوی‘‘کی پرستش عام یونان میں پھیل گئی۔آرٹ کے ماہروں نے شہوانی جذبات کو مجسموں میں نمایاں کیا۔ یونانیوں کے بعد اہلِ روم میں شہوانیت عریانی اور خواہش کا سیلاب پھوٹ پڑا۔ نئی مغربی معاشرت میں مرودوں اور عورتوں کے آزادانہ ماحول نے مغرب کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ ہر مرد و زن صنفِ مقابل کو اپنی طرف جازبِ نظر بنانے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمانے لگے۔

اب میں اپنے عالمگیر مذہب یعنی اسلام کی طرف آتا ہوں،اسلام نے عورت کو فرش سے اٹھا کر عرش پہ پہنچا دیا، اور دنیا پر واضح کر دیا کہ عورت کوئی چیز نہیں ہے۔ عورت کوئی بازار میں بکنے والا کھلونا ہیں ہے، بلکہ عورت کا مقام پیارے آقاﷺ کی اس حدیث سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘ یارو اس ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دیگر مذاہب کے برعکس اسلام میں عورت کو کیا حیثیت حاصل ہے، بشرطیکہ عورت اپنی حیثیت برقرار رکھے۔

اسلام خاندان کی تنظیم کرتا ہے اس تنظیم میں عورت کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ہے۔ کسبِ مال کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے۔ گھر کا سارا انتظام شوہر کرے گا۔ عورت تو گھر کی حکمران ہے اور وہ اپنی حکومت کے دائرہ میں اپنے عمل کی جوابدہ ہے۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جہاں عورت کا اصل مقام گھر ہے۔ وہاں باری تعالیٰ نے عورت کے لیے کچھ آسانیاں میں رکھ چھوڑی ہیں۔ اور آسانیاں یہ کہ وہ قواعد و ضوابط اور حدود کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کچھ حاجات کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے۔ لیکن چراغِ محفل کی حیثیت سے نہیں۔ پیارے آقاﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی ضروریات کی خاطر باہر نکل سکتی ہو
اس سے یہ معلوم ہوا کہ حکمِ قرآنی کا منشا یہ نہیں کہ عورت گھر سے باہر جا ہی نہیں سکتی، مگر یہ اجازت نہ غیر مشروط ہے نہ غیر محدود۔

عورتیں اس کی مجاز نہیں ہیں کہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہیں گھومیں پِھریں اور مردانہ اجتماعات میں گُھل مل جائیں۔ جیسا کہ آج کل بعض لوگ عورت کی بے انصافی کی تلافی کرنے چلے مگر ساتھ ہی غلط کے مرتکب بھی ہو بیٹھے۔ ان لوگوں کے دماغ پر مادیت کا غلبہ ہے۔ اس لئے انہوں نے عورت کو معاشی و تمدنی غلامی سے نجات دلانے کے معنی یہ سمجھے کہ اس کو بھی مرد کی طرح ہر محفل میں لے جا کر بٹھا دیا جائے، تاکہ ہر دیکھنے والی نگاہ اس کی طرف مائل ہوتی رہے۔

اﷲ تعالیٰ نے عورتوں کو یہ حکم دیا کہ گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ کرتی پھرو۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لئے کسی تاریخی بیان کی ضرورت نہیں۔ جاہلیتِ اولیٰ میں عورتیں خوب بن سنور کر نکلتی تھیں، جس طرح دورِ جدید کی جاہلیت میں نکل رہی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ اول تو تمہاری صحیح جائے قیام تمہارا گھر ہے۔ بیرونِ خانہ کی ذمہ داریوں سے تم اس لئے سبکدوش ہو کہ تمہارا وقار قائم رہے۔ تاہم اگر ضرورت پیش آئے تو گھر سے باہر نکلنا بھی تمہارے لئے جائز ہے لیکن نکلتے وقت پوری عِصمت مابی ملحوظِ خاطر رکھو۔ یارو عورت کے معاملہ میں نقطہ عدل کو پانا اسے سمجھنا اور اس پر قائم رہنا انسان کے لیے بہت دشوار ثابت ہوا ہے۔

بعض حضرات عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور بعض لوگوں نے دہشت سے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت و آرائش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت،اور فرنگی معاشرت میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھا تو اضطراری طور پر ان کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش ہماری عورتیں بھی اس روش پر چل سکتیں۔ انیسویں صدی کے آخر میں آزادی نسواں کی جو تحریک مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کے اصل محرک یہی جذبات اور رجحانات تھے۔ اور پھر اس بے لگام آزادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ گھر سے نکلی اور بازاروں کی زینت بن کر رہ گئی۔

وہ عورت جسے اسلام نے گھر کی ملکہ بنایا تھا،وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے لگی، پھر تجارت کے ہر شعبے میں عورت کو استعمال کیا گیا۔ کسی بھی کمپنی کا ایڈ ہو اس میں آپ کو عورت نظر آئے گی۔عزیز دوستوں عورت کے بغیر تو اب کوئی اشتہار مکمل ہی نہیں ہوتا۔عورت چاہے تو اسلام کے دائرہ میں رہ کر ہر شعبے میں ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مجھے لکھنا پڑ رہا ہے کہ عورت نے اپنی ظاہری شان و شوکت کی خاطر اپنا گھر، گھر داری، اپنے بچے سب کچھ پسِ پشت ڈال دیا۔لیکن مجھے فخر ہے ان خواتین پر جو زندگی کے ہر شعبے میں بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں مگر انہوں نے اپنے اندر کی عورت کو مرنے نہیں دیا۔وہ جانتی ہیں کہ وہ کسی کی بیٹی، کسی کی بہن، کسی کی بیوی اور کسی کی ماں ہیں۔ عورت ہمارا وقار ہے،ہماری شان ہے ہمارے گھر کی رانی ہے۔ عورت مرد کی چادر ہے۔ مرد کا لباس ہے

عورت کا مقام آپ کے گھر میں ایسے ہی ہونا چاہیے، جیسے اسلام نے بتایا ہے۔ مجھے افسوس ہے ان والدین پر جو اپنی پڑھی لکھی بیٹیوں کو محض دولت اور ظاہری آن بان دیکھ کر کسی جانور کے حوالے کر دیتے ہیں۔ہماری عورت صرف اس وجہ سے مظلوم ہے کیونکہ کہ اس کا شوہر تعلیم و تربیت سے کوسوں دور ہے۔ آپ بازار چلے جائیں آپ کو عورت محفوظ نہیں لگے گی۔ہر طرف سے اسے غلیظ نظروں نے اپنے گھیرے میں لیا ہوگا پڑھی لکھی عورت کو طلاق دے کر اس وجہ سے ماں باپ کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ باشعور ہوتی ہے۔ وہ پڑھی لکھی ہوتی ہے وہ اپنا اچھا بُرا خود جانتی اور سمجھتی ہے۔درندہ صفت انسان اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے جس کا انسانیت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ہمارے معاشرے میں عورت صرف اس وجہ سے مظلوم اور غیر محفوظ ہو کے رہ گئی ہے کہ وہ اپنی عزت کی خاطر کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی۔

میرے دوستو!آج اگر تم کسی کی بیٹی کو پاؤں کی جوتی سمجھو گے تو یاد رکھو یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔کل کو تمہاری بیٹی کو بھی کوئی درندہ اپنے پاؤں کی جوتی سمجھے گا۔اور میں اپنی بہنوں سے گزارش کروں گا خدارا اپنے آپ کو پہچانو اپنے مقام کو پہچانو۔قرآن کہتا ہے کہ تم پردے میں اچھی لگتی ہو تو پھر تم کیوں پردے سے نکل کر سرِ بازار آ رہی ہو۔لوگ اپنی سب سے قیمتی چیز کو سنبھال کے رکھتے ہیں۔ چھپا کے رکھتے ہیں، فضول چیزوں کو نمائش کے لیے باہر رکھا جاتا ہے۔ گرمی ہو، سردی ہو، دھوپ ہو، بارش ہو، دن ہو یا رات ہو فضول چیزیں باہر پڑی پڑی زنگ آلود ہوجاتی ہیں اور پھر ایک دن کوئی کباڑیہ آ کر سستے داموں خرید کر لے جاتا ہے۔
میری بہنو!اپنے آپ کو کباڑیے کا وہ لوہا نہ سمجھو جسے زنگ لگ چکا ہے۔ خود کو جوہری کا تراشا ہوا وہ قیمتی ہیرا سمجھو جسے وہ بہت سنبھال کے اپنی تجوری میں رکھتا ہے اور کوئی اس ہیرے کو دیکھ بھی نہیں سکتا۔لوہے کے مقابلے میں جو ہیرے کی قدر و قیمت ہوا کرتی ہے نا،باکل اسی طرح ایک بازاری عورت کے مقابلے میں ایک ’’چراغِ خانہ‘‘ کی قیمت ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو چراغِ محفل کے بجائے چراغِ خانہ بناؤ تاکہ دنیا اور آخرت میں ذلت اور رسوائی سے بچ سکو۔
 

Hafiz Muhammad Zahid
About the Author: Hafiz Muhammad Zahid Read More Articles by Hafiz Muhammad Zahid: 14 Articles with 16838 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.