#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰیت 104 تا 109
حدیثِ قُرآن اور اِتباعِ حدیثِ قُرآن !! ازقلم..... اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
یٰاھاالناس ان کنتم
فی شک من دینی فلا اعبد الذین
تعبدون من دون اللہ ولٰکن اعبد اللہ الذی یتوفٰکم
وامرت ان اکون من المؤمنین 104 وان اقم وجھک للدین حنیفا
ولا تکونن من المشرکین 105 ولا تدع من دون اللہ مالا ینفعک ولا یضرک فان
فعلت فانک اذا من الظٰلمین 106 وان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو وان
یردک بخیر
فلاراد لفضلہ یصیب بہ من یشاء من عبادہ وھوالغفوررحیم 107 قل یٰایھاالناس
قد جاء کم الحق من ربکم
فمن اھتدٰی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا وما انا علیکم بوکیل
108 واتبع مایوحٰی الیک واصبر حتٰی
یحکم اللہ وھو خیرالحٰکمین 109
اے ھمارے رسول ! آپ جہان کے ہر ایک انسان کو یہ بات بتادیں کہ اگر تُم میں
سے کسی بھی انسان کو میرے نظریہِ حیات کے بارے میں کوئ شک ھے تو وہ میرے
نظریہِ حیات کے بارے میں یہ بات اَچھی طرح جان لے کہ میں تُمہاری اُن
ہستیوں میں سے کسی ہستی کا تابع دار نہیں ہوں جن کو تُم نے اللہ کی غلامی
سے آزاد ہو کر اپنا آقا و مولٰی بنایا ہوا ھے ، میں تو اُس اللہ کا فرماں
بردار ہوں جو تُمہاری زندگی پر موت وارد کرے گا اور مُجھے میرے اُس اللہ نے
حُکم دیا ھے کہ میں اُس کے ایمان دار بندوں کو ساتھ رکھوں اور اُس کے ایمان
دار بندوں کے ساتھ رہوں ، اُس نے مُجھے حُکم دیا ھے کہ میں دل و دماغ کی
کامل یَک سُوئ کے ساتھ نظریہِ توحید پر قائم رہوں اور میں اپنے ہر ایک قول
اور اپنے ہر ایک عمل میں اپنے اور اہلِ شرک کے درمیان یہ فیصلہ کُن نظریاتی
فاصلہ قائم رکھوں ، اُس نے مُجھے حُکم دیا ھے کہ میں ہر انسان کو اللہ کے
سوا ہر اُس ہستی کی غلامی سے انکار کی تعلیم دوں جو ہستی کسی کو کوئ نفع
نہیں دے سکتی اور جو ہستی کسی کو کوئ نقصان بھی نہیں پُہنچا سکتی اور اللہ
نے مُجھے اِس بات سے بھی خبردار کیا ھے کہ اگر میں ایسا کروں گا تو میں اُس
کی نظر میں ظالم لوگوں کا ساتھی قرار پاؤں گا ، اُس نے مُجھے یہ بھی بتایا
ھے کہ اگر تُجھے کوئ تکلیف دینا چاھے تو اللہ کے علاوہ تُجھے بچانے والا
کوئ نہیں ھے اور اگر اللہ تُجھے کوئ بَھلائ بخشنا چاھے تو اُس کو اِس عمل
سے روکنے والا بھی کوئ نہیں ھے کیونکہ اللہ جس پر اَپنا فضل کرنا چاہتا ھے
اُس پر فضل کرتا ھے ، جس کی خطابخشی کرنا چاہتا ھے اُس کی خطا بخشی کرتا ھے
اور جس پر رحم و کرم کرنا چاہتا ھے اُس پر حم و کرم کرتا ھے اور اُس کے کسی
اردادے یا عمل میں کوئ بھی مُداخلت نہیں کر سکتا اور اے ھمارے رسول ! آپ
جہان کے ہر ایک انسان کو یہ بات بھی بتادیں کہ اللہ کا اَمرِ حق قُرآن کی
صورت میں تُمہارے پاس آچکا ھے ، تُم میں سے جو انسان اِس اَمرِ حق کو قبول
کرے گا وہ راہِ حق پر آجاۓ گا اور تُم میں سے جو انسان اِس اَمرِ حق سے
گریز اختیار کرے گا وہ جہالت و گُم راہی کی اَندھی کھائ میں دَھنستا چلا
جاۓ گا اور تُم میری یہ بات بھی یاد رکھو کہ اللہ نے مُجھے تُمہارا ہمدرد
راہ نما بنایا ھے ، مُجھے تُم پر چابک برسانے والا کوتوال بنا کر مُسلط
نہیں کیا ھے اور اللہ تعالٰی نے مُجھے اپنے اِس عھد کا بھی پابند بنایا ھے
کہ میں صرف اُس کی وحی کا اتباع کروں اُس کی وحی کے سوا کسی چیز کا اتباع
نہ کروں اور اُس وقت تک اہلِ شرک کے جبر کے مقابلے میں صبر کرتا رہوں جب تک
اللہ کا آخری فیصلہ کُن فیصلہ نہ آجاۓ !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عُلماۓ روایت کہتے ہیں کہ " حدیث " اللہ کے اَصل قول پر اپنے رسول کی زبان
سے بیان کیا ہوا وہ اضافی قول ہوتا ھے جو اللہ کے کسی سابقہ مُجمل قول پر
ایک حالیہ مُفصل قول کے طور پر آتا ھے اور اللہ کا یہ حالیہ مُفصل قول
سابقہ مُجمل قول کو ایک مُفصل قول بنادیتا ھے ، سُورَہِ یُونس کی مُحولہ
بالا 6 اٰیات بھی چونکہ اللہ کے اُس سابقہ مُجمل قول کو مُفصل بنانے کے لیۓ
لائ گئ ہیں جو اِس سے پہلے اِس سُورت کی اٰیت 93 میں بیان ہوا ھے اور پھر
اٰیت 94 میں بارِ دِگر اور باندازِ دِگر بیان ہوا ھے اور سُورَہِ یُونس کی
اِن آخری اور حالیہ 6 اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اُن سابقہ دو اٰیات میں
بیان ہونے والے اپنے اُسی سابقہ قانون کو اپنے رسول کی زبان سے قندِ مُکرر
کے طور پر بیان کیا ھے اور ھم نے اِن اٰیات کو اِس بنا پر حدیثِ قُرآن کے
عُنوان سے مُعنون کیا ھے تاکہ ہر مُسلمان یہ بات جان اور سمجھ لے کہ اللہ
تعالٰی جب اپنی کسی بات کو اپنے رسول کی زبان سے بیان کرتا ھے تو اسی کتاب
میں بیان کرتا ھے اور اسی کو حدیث کہتا ھے اور اسی حدیث کو حدیث نہ سمجھنے
اورحدیث نہ ماننے والوں سے اسی کتاب میں سوال کرتا ھے کہ { فبائ حدیث بعدہ
یؤمنون } یعنی ھماری اِس حدیثِ قُرآن کے بعد وہ کون سی حدیث ھے جس پر یہ
لوگ ایمان لائیں گے ، قُرآن اپنی اسی حدیث کو جانتا اور مانتا ھے جو اِس کی
اِس کی دَفتی میں موجُود اٰیات میں سے کسی اٰیت میں موجُود ھے اور قُرآن
اُن اَحادیث کو ہر گز نہیں جانتا اور ہر گز نہیں مانتا جو نزول کے کم و بیش
250 یا 300 سو برس بعد عجم کے کسی قُرآن دُشمن کارخانے میں تیار ہوئ ہیں ،
سُورَہِ یُونس کی حالیہ اٰیات میں سُورَہِ یُونس کی جن سابقہ اٰیات 93 اور
94 کی ھم نے یاد دھانی کرائ ھے اُن اٰیات کی مُختصر تفصیل یہ ھے کہ اُن میں
سے پہلی اٰیت میں قُرآن نے اللہ کا یہ قانون بیان کیا تھا کہ جب زمین پر
اہلِ زمین کے لیۓ اللہ کی کوئ کتابِ عمل آجاتی ھے تو انسان کی لکھی ہوئ
ساری کتابیں اور انسان کے بناۓ ہوۓ سارے فرسودہ فلسفے کالعدم ہو جاتے ہیں
اور اِس قانون کا مطلب یہ تھا کہ نزولِ قُرآن کے بعد اہلِ زمین کے لیۓ
قُرآن ہی وہ واحد کتاب ھے جس پر انسان نے ہمیشہ عمل کرنا ھے اور نزولِ
قُرآن کے اسی زمانے میں چونکہ عُلماۓ بنی اسرائیل کی اُن وضعی اَحادیث کا
بھی دور دورہ تھا جو پہلی کتابوں کا حصہ بن چکی تھیں اور آسمانی کلام اور
انسانی کلام ایک ہی دَفتی میں جمع ہونے کے بعد بنی اسرائیل کے بیشتر لوگ
اِس دَفتی میں شامل کیۓ گۓ عُلماۓ بنی اسرائیل کی اُن احادیث کو بھی وحی
اَلٰہی ہی سمجھتے تھے اِس لیۓ تعالٰی نے اپنے نبی کو بتایا کہ اگرچہ اہلِ
کتاب کے بیشتر اَفراد عُلماۓ بنی اسرائیل کے فتنے کا شکار ہو چکے ہیں لیکن
اِن میں اَب بھی کُچھ ایسے راسخ فی العلم لوگ موجُود ہیں جو جانتے ہیں کہ
اللہ کے اِس کلام میں عُلماۓ بنی اسرائیل کا اپنا کلام بھی شامل ھے اور یہ
وہ خُدا پرست لوگ ہیں جو اِس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ اِس دَفتی میں
کون سی بات وحی ھے اور کون سی بات عُلماۓ بنی اسرائیل کی وضعی حدیث ھے ،
اسی لیۓ اللہ تعالٰی نے اِس قانون کے معا بعد نازل کی جانے والی اپنی وحی
میں اپنے رسول سے کہا کہ اگر اہلِ کتاب کی طرف سے اِس قانوں کے خلاف کی
جانی والی باتوں سے آپ کے دل میں کوئ شک پیدا ہوا ھے تو اَب ھماری اِس وحی
کے بعد وہ شک دُور ہو جانا چاہیۓ اور ھم نے اِس بارے میں اپنی وحی میں آپ
کو وہ سَچی خبر دی ھے جس کی بنی اسرائیل کے راسخ فی العلم لوگ بھی تصدیق
کرتے ہیں اور چونکہ اللہ کے رسول کے دل میں کوئ شک شائبہ بھی نہیں تھا بلکہ
یقین ہی یقین تھا اِس لیۓ موجُود اٰیات میں اللہ تعالٰی نے پنے نبی کو یہ
حُکم دیا ھے آپ کے دل میں اللہ کی وحی کے بارے میں جو ایمان و یقین جو دریا
موج زَن ھے آپ اپنے اُس ایمان و یقین کو اپنی اُمت کے لیۓ تفصیل سے بیان
کریں اور آپ نے اللہ کے اِس حُکم پر عمل کرتے ہوۓ اللہ کی ذات اور اللہ کی
اٰیات پر اپنے جس بے مثال اور لازوال ایمان و یقین کی تفصیل بیان کی ھے ھم
نے اُسی تفصیل کو اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں واضح کرنے کی اپنی سی
کوشش کی ھے !!
|